ہمارے معاشرے میں ایک بات کا ہنر لازمی سکھایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ کمرے میں موجود ہاتھی کو کس طرح سے نظر انداز کرنا ہے۔ اس ہنر کا ہم ہر جگہ استعمال کرتے ہوئے اپنی جسمانی اور ذہنی صحت، مالی حالات، جاب پرفارمنس اور رشتوں میں چل رہے مسئلوں کو نظر انداز کرنے میں مہارت رکھے ہوئے ہیں۔ جو چل رہا ہے…… بس چلنے دو! ہمارے ملک کا منترہ ہی نہیں…… بلکہ ہماری ذاتی زندگیوں کا بھی ڈیفالٹ موڈ بن چکا ہے۔
سیکشول انرجی اس کرۂ ارض پر موجود سب سے پاور فل انرجی ہے۔ اس انرجی سے ہی زمین کا وجود اور اس پر زندگی قایم ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اس کے متعلق خود کو ایجوکیٹ کرکے، ایکسپلور کرکے اسے ’’کریٹویٹی‘‘ یا اپنا ’’ہائی پوٹنشل‘‘ حاصل کرنے کے لیے اس انرجی کو ’’چینل‘‘ (Channel) کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ جنسیت سے متعلق ہر بات کو ’’شیم‘‘ (Shame)، ’’گِلٹ‘‘ (Guilt) مذاق کے لحاف میں لپیٹ کر کرنا اس کی اہمیت اور اس کو نظر انداز کرنا انسان کی "Well-being” کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
تاریخ میں عموماً بڑے سائنس دان، لیڈر، روحانی رہنما (جو جعلی نہیں تھے)، میوزیشن، آرٹسٹ یا پھر جنہوں نے کچھ بھی نیا کریئٹ کیا ہو، ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سیکشول انرجی کو کریٹویٹی میں چینل کرنے کا فن جانتے تھے۔
ایلن مسک، بیتھوون، ڈاونچی اور نیکولا ٹیسلا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی سیکشول انرجی کو کریٹویٹی میں بدلا۔ ایلن مسک (Elon musk) نے ایک پوڈکاسٹ میں سیکشول انرجی کو ضایع کرنے سے متعلق تنبیہ کی اور اسے ’’پروکریئشن‘‘ کے علاوہ استعمال کرنے کو وقت اور انرجی کا مکمل ضیاع قرار دیا۔ یہ ایک آسان اور ’’چیپ پلیژر‘‘ ہے لیکن اس ’’پلیژر‘‘ کی قیمت بے شک بہت بڑی ہے۔
اب کتاب کی بات کی جائے، تو پہلی کتاب "How to think more about sex” کے رائیٹر ’’ایلن ڈی بوٹن ہیں۔‘‘ ایلن فلسفی ہیں اور یہ کتاب انہوں نے فلسفہ، سائیکالوجی اور تھوڑی بہت بیالوجی کو مدِنظر رکھ کر لکھی ہے۔ ایلن سیکولر یہودی ہیں اور ہم ایک اسلامی معاشرہ…… یقینا کلچر کا فرق ہے…… لیکن کتاب میں بہت کچھ ہمارے مسایل سے بھی میل کھاتا ہے۔
ایلن کتاب میں شادی، بے وفائی (Infidelity)، ’’ریلیشن شپز‘‘، ’’مونوگیمی‘‘ (Monogamy)، پورنوگرافی وغیرہ کو زیرِ بحث لائے ہیں۔
دوسری کتاب خالص ارتقائی بیالوجی (Evolutionary Biology) اور بیالوجی کو مدِ نظر رکھ کر لکھی گئی ہے…… جو آپ کے کئی سوالات جیسے کہ انسانوں کا باقی جان داروں سے مختلف سیکشول رویہ کیوں ہے؟ ہماری مختلف جسامت اور باقی کئی ایسے سوالوں کا سائنسی نظریہ فراہم کرتی ہے۔
جیرڈ ڈائمنڈ ایک "Pulitzer” انعام یافتہ سائنس دان اور بہت اعلا درجے کے ریسرچر ہیں۔ ان کتابوں کو دو سال پہلے پڑھا تھا…… لیکن جج ہونے کے خوف سے اس پر بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہ میرے لیے ایک ’’اَن کمفرٹیبل‘‘ (Uncomfortable) ٹاپک ہے…… لیکن سوچا آج کمرے میں ہاتھی کی طرف اشارہ کرکے، اسے کمرے سے باہر نکال کر، کمرہ خالی کردیا جائے!
وہ ٹین ایجرز یا لوگ جو پورن ایڈکشن کا شکار ہیں…… ان کے لیے مشورہ ہے کہ وہ خود کو جج نہ کریں۔ شیم نہ کریں۔ ہمارا معاشرہ ایڈکٹز (Addicts) پر تنقید کرتا ہے…… لیکن انہیں سپورٹ نہیں کرتا۔
مغرب میں "NoFap” کے نام سے ایک کمیونٹی بنی…… جس کی ویب سائٹ موجود ہے۔ یہ آپ کو سپورٹ کرتے ہیں اس ایڈکشن سے چھٹکارا حاصل کرنے میں۔
ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کے نوجوانوں میں بھی یہ کمیونٹی بہت مقبول ہورہی ہے۔ کیوں کہ انڈیا کے نوجوانوں کو کریٹویٹی کا خبط سوار ہے…… اور وہ اپنی انرجی کا بہترین استعمال چاہتے ہیں۔
مشہور سنگر "Billie Eillish” بھی اس مہم کا حصہ ہیں۔
گلے، شکایتیں اور بلیم کرنے سے جب بھی فرصت ملے، تو بکھری ہوئی زندگی کو تھوڑا سا بہتر بنانے کے بارے میں سوچنا ضرور چاہیے۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
کچھ بکھری ہوئی زندگی بارے بھی سوچیں!
