ایک پڑوسی پہاڑی علاقے میں آنا جانا رہتاہے۔ وہاں کئی سرگرمیوں اور اشیا کے مشاہدے کا موقع ملا۔ وہاں کے کئی گھروں کے مہمان خانوں میں رہنے کا موقع ملا۔ دیروں کا رواج تو پرانا ہے کہ ا س کا تعلق بھی انفرادیت سے زیادہ کلیت سے ہے۔ وہاں دیروں میں دیکھا کہ باتھ روم (غسل خانہ و پاخانہ) نئے نئے بنے ہیں اور ان میں زیادہ تر اُس بڑے کمرے سے منسلک نہیں۔ عموماً مہمان خانے کے اُس بڑے کمرے سے دور ہیں۔ دوسری بات ان غسل خانوں کے دروازوں کے پیچھے کنڈیاں نہیں ہیں۔ مطلب آپ اندر ہوکر دروازے کو اندر سے ایسا بند نہیں کرسکتے کہ اس کو کوئی دھکے سے نہ کھول سکے۔ اگر ایک گھر یا دو میں ہوتا تو حیرت نہ ہوتی اور نہ اس پر سوچنے کی نوبت ہی آتی۔ مسلسل کئی گھروں میں یہ دیکھ کر غور کرتا رہا۔
ساتھ دوسرا مظہر یہ دیکھا کہ وہاں میزبان، مہمان کے ساتھ دیر تک دیرے میں بیٹھتا ہے اور اکثر میزبان، مہمان کے ساتھ ہی مہمان خانے میں سوتا ہے…… یا گھر کے کسی فرد کو وہ یہ ذمہ داری سونپتا ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور پڑوسی علاقے میں کہیں کہیں اب بھی یہ روایت موجود ہے کہ شادی کے وقت دولہا گھر پہ نہیں ہوتا۔ وہ شادی کے بعد بیوی کے ساتھ اپنے کسی نجی کمرے میں نہیں رہ سکتا بلکہ وہ سہاگ رات بھی اکثر گھر سے باہر کہیں کسی کھیت میں مناتا ہے۔
یہ روایات انوکھی نہیں…… تاہم جدیدت اور روایت کے بیچ پھنسے معاشروں کے تضادات ہیں۔ واقعی میں 17ویں صدی کے اختتام تک دنیا میں کہیں بھی کوئی نجی اور انفرادی زندگی نہیں ہوا کرتی تھی۔ فرد اور خاندان پر سماج حاوی ہوتا تھا۔ فرد کی کوئی نجی زندگی نہیں تھی۔ دوسرے معنوں میں فرد کی کوئی انفرادی شناخت نہیں تھی۔ وہ بس ایک ثقافتی کُل میں ضم ہوکر رہتا تھا۔ وہ محض ایک گھرانے کا پرزہ ہوتا تھا اور یہ گھرانا (خاندان) آگے پورے گاؤں اور سماج کا پرزہ ہوتا تھا۔ فرد کی اس خاندان اور سماج کے علاوہ کوئی انفرادیت نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت کسی کو نجی/ اکیلا نہیں چھوڑا جاتا تھا۔
اوپر دیے گئے سماجی مظاہر کو اسی تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ غسل خانے/ پاخانے کے دروازے کے اندر سے کنڈی کا نہ ہونا اور مہمانوں کو مہمان خانے میں اکیلے نہ چھوڑنا…… یہی ظاہر کرتا ہے کہ کسی کو بھی اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں اگر اس سماجی اور ثقافتی کلیت کے کئی مثبت پہلو اپنی جگہ موجود ہیں، تودوسری طرف کئی منفی اثرات ایسے ہیں کہ ایسے معاشروں میں نئے افکار پنپ نہیں سکتے…… نئے خیالات جنم نہیں لے سکتے اور نہ نئی ایجادات ہی ہوسکتی ہیں۔ کیوں کہ یہاں فرد کی انفرادیت کو مار دیا جاتا ہے اور جو شخص اب اس نئی عالم گیریت میں مواصلات اور ابلاغ کے نئے ذرائع کے واسطے نئے خیالات سے اگر آشنا بھی ہوجائے، تو اپنے اس سماج میں تنہا ہوکر رہ جاتا ہے…… یا پھر بے دلی سے ان روایات کی پیروی کرتا ہے۔ کہیں کہیں اس گھٹن کی وجہ سے ایسی بغاوتیں رونما ہوجاتی ہیں…… جو کئی سالوں تک خاندانوں کے بیچ مسلسل کشیدگی کا باعث بنی رہتی ہیں۔ ایسے کئی بند معاشروں میں ایسی بغاوت کرنے والوں کو سفاکی سے مار دیا جاتا ہے…… تاکہ یہ بغاوتیں ختم ہوں……!
مگر کیا کیجیے کہ ختم ہونے کی بجائے خاندانی غیرتوں کے خلاف یہ بغاوتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ ایسے معاشروں میں اب بڑے/ پرانے لوگوں اور نئی نسلوں کے بیچ تکلم تقریباً ختم ہوچکا ہے اور لوگ انفرادیت کی بجائے تنہا ہوچکے ہیں۔
اب اس کا حل کیا ہے؟
مجھے پتا نہیں کہ میں بھی کہیں نہ کہیں کسی کُل کا حصہ ہوں…… اور مسلسل اپنی انفرادیت کو مارتا رہتاہوں!
تاہم یہ بھی ذہن میں رکھنا ہے کہ ان چھوٹی ثقافتی کلیتوں کو ریاستی قومیت کی خاطر مار کر ایک بڑی کلیت میں تبدیل کرکے ان چھوٹے ’’پریشر ککر‘‘ کو ایک بڑے ’’پریشر ککر‘‘ میں ڈھالا جاتا ہے۔ یوں یہ چھوٹی جیل، بڑی جیل میں بدل جاتی ہے۔ ایسا اپنے پیارے ملک میں اس کے معرضِ وجود میں آنے کے وقت سے کیا جاتا ہے اور یہ منصوبہ ہنوز جاری ہے…… بلکہ اس میں زیادہ شدت آئی ہے، جہاں اس بڑے پریشر ککر کو مسلسل ایسے گروہ (جن کو ادارے کہا جاتا ہے) تپانے میں مصروف ہیں کہ ان گروہوں پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے، نہ آئین…… بلکہ یہ صرف اپنی پادشاہی روایات پر چلتے ہیں۔ وہ ان چھوٹے پریشر ککروں کو بھی مضبوط کرتے ہیں…… تاکہ ان میں اور ان کے اپنے اس بڑے پریشرککر میں روایتی یکسانیت ہو۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔