یہ چالیس افراد پر مشتمل سیاحوں کا ایک قافلہ تھا جس میں 14 مختلف ملکوں کے لڑکے، لڑکیاں اور مرد و خواتین ایک دوسرے کے ہم سفر تھے۔ اس قافلے کو ایک آرام دہ کوچ کے ذریعے لندن سے پیرس پہنچنا تھا۔ کوچ میں سفر کے آغاز پر نوجوان ٹوورسٹ گائیڈ یعنی سیاحتی رہنما نے تمام مسافروں کا تعارف کرایا اور پیرس کے بارے میں ضروری اور دلچسپ معلومات سے آگاہ کیا۔
یہ 1994ء کی بات ہے۔ مَیں بھی اس قافلے میں شامل تھا۔ پیرس میرے خوابوں کا شہر تھا اور مَیں اس بے مثال شہر کی خوب صورتی اور ’’ایفل ٹاؤر‘‘ کو دیکھنے کا دیرینہ خواہش مند تھا۔ اس شہر میں چار دن قیام اور سیر سپاٹے نے مجھے پیرس کی رعنائیوں کا اسیر کردیا۔ ہم فرانسیسی دارالحکومت کی ہر اہم اور مشہور جگہ پر قافلے کی شکل میں جاتے اور ٹوورسٹ گائیڈ ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتی۔ ایک دو بار مجھے ہوٹل سے باہر خریداری کے لیے اکیلے جانا پڑا، تو فرانسیسی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے بڑی دشواری ہوئی۔ اس شہر میں کوئی بھی انگریزی زبان نہیں سمجھتا اور اگر کوئی سیاح کسی مقامی باشندے سے انگریزی میں بات کرے، تو وہ اسے دانستہ نظر انداز کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیرس آنے والے اکثر سیاح کام چلانے کے لیے فرانسیسی زبان کی گائیڈ بک ساتھ لیے پھر رہے تھے۔
ایک سٹور میں خریداری کرتے ہوئے میں نے منیجر سے پوچھا کہ تم لوگ انگریزی کیوں نہیں بولتے؟ لیکن اس نے میرے استفسار کو سُنا اَن سُنا کردیا۔ اتفاق سے ایک انگریز بھی اس وقت قریب کھڑا تھا۔ وہ میرا سوال سن کر مسکرانے لگا۔ یہ انگریز، فرانسیسی زبان بولنا جانتا تھا۔ اس نے میرے سوال کو فرانسیسی زبان میں منیجر سے پوچھا، تو اس کا جواب سن کر وہ انگریز پھر سے مسکرایا اور مجھے بتایا کہ منیجر کا کہنا ہے: ’’ہم فرانسیسی گونگے نہیں ہیں، ہماری اپنی ایک زبان ہے جو ہماری پہچان ہے ۔‘‘ مَیں بھی اس کا یہ جواب سن کر مسکرا دیا اور سوچنے لگا کہ کیسی عجیب قوم ہے جو اپنی زبان کو اپنی پہچان کا بنیادی حوالہ سمجھتی ہے اور عالمی رابطے کی ایک بڑی زبان یعنی انگریزی کی اہمیت اور اِفادیت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
فرانس سے واپسی کے کچھ عرصے بعد مجھے جرمنی، ہالینڈ اور سکینڈے نیویا کے ممالک ڈنمارک، سویڈن اور ناروے جانے کا بھی موقع ملا۔ ان ملکوں میں جاکر اپنی قومی زبان کے معاملے میں میری حیرانی مزید بڑھ گئی کہ یورپ کے بیشتر ممالک اپنی قومی زبان کے سلسلے میں کسی قسم کے سمجھوتے کے قائل نہیں۔ حتیٰ کہ وہ ممالک جن کی آبادی چند لاکھ افراد پر مشتمل ہے، ان کا تمام تر تعلیمی نصاب اُن کی اپنی زبان میں ہے۔ کمپیوٹر کے سارے پروگرام ان کی اپنی زبان میں ہیں۔ شاہراہوں اور موٹرویز پر تمام ہدایات ان کی اپنی زبان میں ہیں۔ تمام سرکاری ٹی وی چینل ان کی اپنی قومی زبان میں ہیں اور ان چینلوں پر قومی زبان کو انگریزی کی غیر ضروری آمیزش سے ایک عجیب لسانی ملغوبہ بناکر پیش نہیں کیا جاتا۔
پورا یورپ انگریزی زبان کے معاملے میں کسی قسم کے احساسِ کمتری اور مخمصے میں مبتلا نہیں۔ جرمنی ہو یا فرانس، ناروے ہو یا اٹلی، ان سب ممالک نے نہ صرف اپنی اپنی زبانوں کو ہر سطح پر اپنا ذریعۂ تعلیم بناکر ترقی کی ہے بلکہ انگریزی زبان کی بالادستی کو کبھی قبول اور تسلیم نہیں کیا۔ اسی وجہ سے برطانیہ میں اسکول کے بچوں کو ایک یورپی زبان سیکھنی پڑتی ہے جو ان کے نصاب کا حصہ ہوتی ہے۔
جرمنی، فرانس یا کسی اور یورپی ملک سے کوئی سربراہ ِمملکت یا کوئی سرکاری وفد برطانیہ آتا ہے، یہاں کی حکومت ان سے ترجمان کے ذریعے ملاقات اور مذاکرات کرتی ہے اور کبھی یہ نہیں سمجھا جاتا کہ جن کو انگریزی نہیں آتی، وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔
برطانیہ میں لسانی اور تہذیبی اقدار کا احترام کیا جاتا ہے۔ مَیں پہلے بھی کئی بار اس حقیقت کی نشان دہی کرچکا ہوں کہ ’’یونائیٹڈ کنگڈم‘‘ ایک ’’ملٹی کلچرل‘‘ اور ’’ملٹی لنگول‘‘ ملک ہے۔ یہاں درجنوں ملکوں اور ثقافتوں کے لوگ اور سیکڑوں زبانیں بولنے والے تارکینِ وطن آباد ہیں۔ برطانیہ میں قریباً تین سو مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ برطانیہ کے مختلف حصوں میں مختلف لہجوں میں انگریزی بولی جاتی ہے۔ سکاٹش، آئرش اور ویلش لہجہ، انگلینڈ کے انگریزی لہجے سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں تک کہ لندن کی ’’کوکنی انگلش‘‘ اور یارکشائر کے انگریزی لہجے میں بھی بہت فرق ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ میں اردو بولنے والوں کے لہجے مختلف ہوتے ہیں۔
لندن میں مجھے اُردو کے دو انگریز پروفیسروں سے ملاقاتوں کے مواقع ملے جن میں ایک پروفیسر ’’رالف رسل‘‘ تھے اور دوسرے ’’ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز‘‘ ہیں۔ یہ دونوں انگریز لندن یونیورسٹی کے ’’اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریقین سٹڈیز‘‘ میں اُردو پڑھاتے رہے ہیں۔ یہ دونوں انگریز استاد اُردو بولتے ہوئے کبھی اس میں انگریزی الفاظ کی آمیزش نہیں کرتے تھے۔ مَیں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ اُردو زبان میں الفاظ کا ذخیرہ اتنا زیادہ ہے کہ اس میں بلا ضرورت انگریزی کے الفاظ شامل کرنا اس زبان کے حسن کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔
اسی تناظر میں جب مَیں پاکستان میں اُردو زبان کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھتا ہوں، تو اپنے لوگوں کی لسانی نفسیات پر افسوس ہوتا ہے کہ ایک تو ہم نے اُردو کو اُس طرح اپنا ذریعۂ تعلیم نہیں بنایا جیسا کہ یورپ کے بہت سے ترقی یافتہ ملکوں نے اپنی قومی زبان کو بنا رکھا ہے۔
دوسرا ہم نے اپنی علاقائی زبانوں کو ایک مضمون کے طور پر سکولوں کے نصاب (خاص طور پر پنجاب) میں شامل نہیں کیا۔ ہمارا سارا زور ایک پرائی زبان یعنی انگریزی سیکھنے پر ہے۔ برصغیر انگریز کے زیرِ تسلط رہا ہے۔ شاید اس لیے ہمارے ملک میں آج تک انگریزی کو برتری کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے انگریزی بولنے والوں سے ہمارے لوگ بہت جلدی مرعوب ہوجاتے ہیں اور ہم صرف اسے اعلا تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں جو انگریزی بول سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض حکمران، امریکہ اور برطانیہ کے سربراہانِ مملکت سے ملاقاتوں میں غلط انگریزی بول کر خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ حالاں کہ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ غلط انگریزی بولنے کی بجائے ترجمان کے ذریعے اپنی زبان میں بات چیت کی جائے اور اعتماد کے ساتھ کی جائے جیسا کہ چین کے صدر، جرمنی کی چانسلر اور فرانس کے حکمران غیرملکی دوروں میں ہمیشہ اپنی قومی زبان ہی میں بات چیت کیا کرتے ہیں۔
قارئین، انگریزی دنیا کی دوسری بڑی اور عالمی رابطے کی زبان ضرور ہے لیکن یہ سمجھ لینا کہ انگریزی کے بغیر ترقی ممکن نہیں، بالکل غلط سوچ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج چین، ناروے ، جرمنی، جاپان اور فرانس جیسے ممالک ترقی پذیر اور پس ماندہ ہوتے۔ انگریزی زبان سے مرعوب ہونے اور اس کے نفسیاتی اثر کی وجہ سے ہم نے اپنی قومی اور علاقائی زبانوں کو حقیر سمجھنا شروع کردیا ہے۔ حالاں کہ اُردو بھی دنیا کی تیسری یا چوتھی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے اور یہ تو وہ زبان ہے جو ہماری تہذیب و تمدن کی بھی عکاس ہے۔ یہ انگریزی زبان کے نفسیاتی اثر کا شاخسانہ ہے کہ اب ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر انتخاب کی جگہ الیکشن، ہوائی اڈے کی جگہ ائیرپورٹ، وزیراعظم کی جگہ پرائم منسٹر، کارروائی کی جگہ ایکشن، نج کاری کی جگہ پرائیویٹائزیشن، فوج کے سربراہ کی بجائے آرمی چیف، تعیناتی کی جگہ پوسٹنگ، حزبِ اختلاف کی بجائے اپوزیشن اور تحقیقات کی بجائے انکوائری نے لے لی ہے۔
یہ تو نمونے کے چند الفاظ کی نشان دہی ہے، اُردو کے ایسے سیکڑوں الفاظ جو کبھی اخبارات میں عام استعمال ہوتے تھے، اب ان کی بجائے سرخیوں میں ان کے متبادل انگریزی الفاظ کی بھرمار ہوتی ہے۔
اسی طرح ٹی وی چینلوں پر صبح کے جو پروگرام (مارننگ شو) پیش کیے جاتے ہیں یا کھانے پکانے (کوکنگ) کے جو پروگرام دکھائے جاتے ہیں، ان میں پروگرام کی خاتون یا مرد میزبان غیر ضروری طور پر آدھے سے زیادہ انگریزی الفاظ بولتے ہیں۔ حالاں کہ اُن انگریزی الفاظ کے متبادل ہمارے پاس اُردو کے شان دار لفظ بھی موجود ہوتے ہیں مگر شاید یہ میزبان انگریزی کی آمیزش سے خود کو پڑھا لکھا ثابت کرنا چاہتے ہیں، یا اپنے ناظرین اور سامعین کو مرعوب کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس پر حیرانی کی بات یہ ہے کہ انہیں ایسا کرنے سے روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ شاید پروگرام کے پروڈیوسر یا ڈائریکٹر بھی اس کا نوٹس نہیں لیتے، یا اسے درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔
اُردو کے ایک گھنٹے کے پروگرام میں آدھے سے زیادہ انگریزی الفاظ بولنے والے میزبانوں پر یہ پابندی لگا دینی چاہیے کہ وہ آدھے گھنٹے کا پروگرام مکمل طور پر انگریزی زبان میں کریں اور اس میں اُردو کے کسی لفظ کی آمیزش یا ملاوٹ نہ کریں اور باقی آدھے گھنٹے کا پروگرام مکمل طورپر اُردو زبان میں پیش کریں، تاکہ ان کی دونوں زبانوں کی مہارت سے ناظرین و سامعین اِستفادہ کرسکیں۔ اُردو زبان کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنانے سے ہم اپنی زبان کی چاشنی اور نفاست سے محروم اور اپنی تہذیب و تمدن سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کے ورثے کا تحفظ کریں۔ انگریزی زبان کے نفسیاتی اثر سے نجات حاصل کریں۔ مَیں کوے اور ہنس کی چال کی مثال نہیں دینا چاہتا۔ اچھا یہی ہے کہ تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھا جائے۔
عقل مند را اشارہ کافی است!
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔