ہم تنقید کرنے والی قوم ہیں۔ ہم اصلاح کرنے کے بجائے تنقید کرتے ہوئے گزر جانے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ ہماری آنکھوں، سماعتوں یا سوچ کو کچھ برا لگے، تو ہم بلا تکان اس پہ تنقید کریں گے اور کسی کا دل توڑتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ ہم چوک میں لگی تصویر پہ غلطی کا نشان لگانے جیسا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی تصویر پہ درستی کا پیغام آ جائے، تو ہم کان کجھاتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ تنقید کرنا یقینی طور پر اہم ہے، لیکن اس تنقید میں اصلاح کا پہلو نہ ہو تو یہ مکمل طور پر منافقت پہ مبنی ایک عمل ہے۔ کیوں کہ آپ کی تنقید اگر اصلاح نہیں لاسکتی، تو یہ بے فائدہ ہے۔ ایسا ہی ہم نے نصیبو لال کے گانے کے حوالے سے کیا۔
پی ایس ایل کے لیے نصیبو لال سے گائیکی کروائی گئی اور اس پہ بے پناہ طنز بھی کیا گیا۔ نت نئے لطائف بھی مارکیٹ میں دیکھنے کو ملے۔ ہم نے نصیبو لال کو ایک انسان سمجھنا گوارا نہیں کیا جس کے احساسات ہوسکتے ہیں، جس کے دل میں بھی یہ خیال ہو سکتا ہے کہ کوئی اس پہ تنقید بھی کرے، تو اس کی اصلاح شائد مقصد ہو۔ ایک غیر ملکی ویب سائٹ کو انٹرویو میں اُس کی آنکھ کے آنسو بھی شائد بطورِ مجموعی ہماری معاشرتی بے حسی کو دھونے میں یکسر ناکام ہیں ور ناکام ہی رہیں گے۔ کیوں کہ ہمارا ’’تنقیدی کردار‘‘، ’’اصلاحی کردار‘‘ بننے سے نہ صرف کوسوں دور ہے، بلکہ ہم اس حوالے سے کوشش بھی نہیں کرنا چاہتے۔
’’گروو میرا‘‘ پی ایس ایل چھے کا ترانہ ہے۔ اس میں گلوکاری نصیبو لال، آئمہ بیگ اور ینگ اسٹنرز نے کی۔ اس حوالے سے ایک نئی بحث نے سوشل میڈیا پہ جنم لیا۔ بحث یہ تھی کہ نصیبو لال کے حوالے سے ایک تنقیدی بحث شروع ہوگئی۔ مثال کے طور پر ایک صارف کا پیغام نظر سے گزرا کہ نصیبو لال کو اس ترانے میں دیکھتے ہی ’’گجرا وے‘‘ کا خیال ذہن میں آیا۔ آپ کے قلوب و اذہان میں ایسا خیال آنے کا قصور آپ کا ہے، نصیبو کا تو نہیں۔ یہ بطورِ مجموعی ہمارے رویے ہیں جو ہمیں ایک قوم بننے میں نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے رویے انفرادی شخصیات کا حوصلہ توڑنے کے حوالے سے بھی منفی کردار ادا کرتے ہیں۔ ’’گروو میرا‘‘ یقینی طور پر تمام پاکستانیوں کے لیے اہم ہے کہ پی ایس ایل اب ایک برانڈ بن چکا ہے۔ اس ترانے میں جہاں بہت سی اچھی چیزیں اگر ہوئیں، تو ہوسکتا ہے کچھ خامیاں بھی رہ گئی ہوں، لیکن نصیبو لال کے اس ترانے میں کردار کو جس منفی انداز سے تختۂ مشق بنایا گیا، وہ انتہائی کرب ناک ہے۔ ہم کسی پہ تنقید کرتے ہوئے اس کی ذات کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ہم یہ بھی سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ جس طرح ہم کسی کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں، ہو سکتا ہے اُسے اپنی ذات کو تروپے لگانے کے لیے پھر سالہا سال لگ جائیں۔
اس ترانے کی ابتدا نصیبو لال نے کی اور اس میں وہ ایک نئی جہت میں نظر اس لیے آئیں کہ ان کا لباس ہو یا گائیکی کا انداز، وہ ان سے منسوب عام روش سے بالکل ہٹ کے تھا۔ عرض اتنی سی ہے کہ نصیبو لال کی آواز میں ہی دھمک سی ہے اور یقینی طور پر وہ ایک دفعہ پہلے بھی آنسوؤں کے ساتھ (شائد عدالت میں) اقرار کر چکی ہیں کہ پروڈیوسر انہیں جب گانے ہی لچر اور بے ہودہ پرفارم کرنے کو دیتے ہیں، تو وہ کیا کریں؟ یقینی طور پر اس میں وہ درست بھی ہیں۔ آپ ایک لمحہ اندازہ لگائیے کہ ایک گلوکارہ ہے جو کوری اَن پڑھ ہے۔ اسے آپ جو گانے کو دیں گے، وہ گا دے گی۔ اس کے پاس فیصلہ کرنے کی طاقت کی بھی کمی ہے، تو پھر اس سے گلہ کس بات کا کہ اس نے ہودہ گانے گائے اور بے ہودہ شاعری ادا کی۔ ایسا گلہ ان سے کیجیے جنہوں نے اس سے یہ گانے گوائے ہیں۔ ایسے گانے لکھنے والوں کو بھی پکڑ میں لانا چاہیے تھا کہ جنہوں نے اس سے ’’گجرا وے‘‘ جیسے فرضی شاہکار گوا ڈالے۔ پھر منجھی تلے ڈانگ ہو یا مسمیاں ہوں ایسی ایسی بے ہودگی لکھی گئی کہ خدا کی پناہ۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ بے ہودگی چند ٹکوں کی خاطر موسیقی میں ڈھال بھی دی گئی اور نصیبو نے کیوں کہ ایک عروج دیکھا ہے اور لوگ نصیبو کی آواز کے اتار چڑھاؤ سے اپنی سانسوں کا اتار چڑھاؤ محسوس کرتے تھے، تو پھر اس نے گایا بھی۔ وہ ان پڑھ تھی اور اس کی روزی روٹی بھی اس شعبے سے وابستہ ہوگئی تو پھر وہ کیوں کر انکار کرتی؟ ایسا ہی ہوا اس نے انکار بھی نہیں کیا اور اس کے البم پہ البم سطحی معاشرے میں ہٹ ہوتے گئے۔
لوگ سننا ہی اگر بے ہودگی چاہتے تھے، تو پھر نصیبو کا قصور کیا تھا اس میں؟ رہی سہی کسر سٹیج ڈراموں نے پوری کر دی۔ سٹیج ڈراما آپ ایک گھنٹے کا چلائیں، یا دو گھنٹوں کا! لوگ صرف رقص دیکھنے آنے لگے اور پروڈیوسر نے پیسے پورے کرنے کے لیے نصیبو سے بے ہودہ شاعری گوائی اور لوگوں سے واہ واہ کے ساتھ پیسے بھی سمیٹے۔
ایک اَن پڑھ گلوکارہ جو ایک دم سے بڑی سکرین پہ آ گئی، وہ اس لیے بنا سوچے سمجھے سب گاتی گئی کہ اس کی زندگی کی گاڑی بہتر چلنا شروع ہوگئی۔ ہم قصوروار صرف نصیبو لال کو ٹھہراتے رہے، لیکن ہم نے شاعری لکھنے والے کو، اس شاعری کو موسیقی میں ڈھالنے والے کو اور سب سے بڑھ کر اس پروڈیوسر کو نہیں پکڑا جو نصیبو لال کی آواز کو کیش کرواتے رہے اور اپنی جیبیں بھرتے رہے۔
عابدہ پروین صوفی گائیکی میں ایک لیجنڈ ہیں۔ ان کی آواز کا جائزہ لیجیے۔ آپ نصیبو کو بھی گانے کے لیے صوفیانہ کلام دیں اور پانچ دس سال میں آپ پھر خود کہہ رہے ہوں گے کہ اس کی آواز نے کمال کر ڈالا۔ ڈاکٹر معصومہ انور کی آواز اکثر سننے کو ملتی ہے۔ ان کی آواز کی گونج ایک لمحہ محسوس کیجیے اگر نصیبو لال کی بھی باقاعدہ تربیت ہو اور اسے گانے کو اچھی شاعری ملتی، تو اس کی آواز میں بھی کوئی کمی نہیں تھی، لیکن اس سے ہم نے گوائی ہی بے ہودگی۔ اب شو مئی قسمت اس کے نصیب میں پی ایس ایل چھے کے آفیشل گانے ’’گروو میرا‘‘ کی صورت میں ایک اچھا پراجیکٹ آ ہی گیا، توخدارا! اس کو نصیبو کے لیے ایک اچھا آغاز ثابت ہونے دیجیے۔ آپ اس کی آواز کو گجرا وے کے ساتھ منسوب کرنا چھوڑ دیجیے اور اس گلوکارہ پہ رحم کیجیے۔
آپ نصیبو لال کو اچھے پراجیکٹ دیجیے۔ اس کو اچھی شاعری دیجیے۔ یہ اپنی آواز سے ایسا کمال کر دے گی کہ بہت جلد اچھی گلوکاراؤں میں اپنا شمار کروا لے گی۔ نجانے کس کس سٹوڈیو کے نام پہ عوام کی سمع خراشی کی جا رہی ہے، تو نصیبو لال کی آواز میں تو بہرحال پھر بھی ایک کشش موجود تو ہے۔ جب آپ برانڈڈ سمع خراشی برداشت کرلیتے ہیں، تو نصیبو لال کا ’’گروو میرا‘‘ بھی برداشت کر لیجیے کہ یہ گلوکارہ حقیقتاً صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔