2 جنوری 2 ہزار 21، سالِ نو کا دوسرا چمک دار ’’دہ جمعے خور‘‘ (ہفتے کا دن) اور ہم، سویرے سویرے بَر ہسپتال سیدو شریف سوات میں مریض کی عیادت کے بعد وارڈ سے نکلتے ہیں، تو ہسپتال کے حدود اربعہ پر ایک طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں۔ آٹھ دس سال کے مختصر عرصے میں سرکار کی یہ عوامی علاج گاہ اتنی پھیل گئی ہے کہ ہم جیسے گئے گذرے اس کے شارعِ عام پر چلتے ہوئے اگر بھٹک جائیں، تو ایک لحظہ میں ’’معلوم سے نامعلوم‘‘ ہوجائیں۔ مغرب میں مرغزار خوڑ اور جنوب میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کی طرف پھیلتا ہوا یہ ہسپتال اس وقت بھی مخلوقِ خدا سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ بیماروں، تیمار داروں، فارما سیوٹیکلز کے اہلکاروں، لیبارٹریز کے سفارت کاروں، ڈاکٹروں اور اُن کے نائبوں کا چلتا پھرتا ہجوم ہے جو ایک نہ ختم ہونے والے ’’بامبیڑ‘‘ میں گرفتار ہے۔ خوف وہراس کا ماحول، سراسیمگی کا سماں، خدا کی پناہ! ’’یا اللہ، ہمیں ہسپتالوں کے دھکے کھائے بنا اوپر بلانا!‘‘ یہ دُعا کرتے ہوئے اوراپنے کیے دھرے کی معافی مانگتے ہوئے بھاگم بھاگ مین روڈ کی طرف نکل کر بائیں مڑتے ہیں، تو کیا دیکھتے ہیں کہ باہر سے یہ ہسپتال ادویہ کی دُکانوں اور لیبارٹریوں کی قید میں ہے۔ اِس کے اَڑوس پڑوس میں میڈیکل کالج اور طبی مراکزکا سلسلہ امان کوٹ پل تک پہنچ گیا ہے اور مزید آگے جا رہا ہے۔ سیدو شریف تو اب مسیحاؤں کی بستی میں تبدیل ہوگیاہے۔ اور کیا رہ گیا ہے یہاں، سوائے جہان زیب کالج کی درودیوارکے، باقی علاقہ تو نجی ہسپتالوں اور کارپارکنگ میں کھو گیا ہے۔ ہر طرف اِسی ایک بزنس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، جوہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا وسیلہ بن گیاہے۔ بیمار اور بیماریوں کی ’’ترقی‘‘ کی اس دوڑ میں مریض ٹھیک بھی ہوتے ہیں، لیکن ٹھیک کتنے ہوتے ہیں، ادویہ کے ایڈیکٹ کتنے ہوتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر اِن کی تعداد میں اضافہ کتنا ہوتا ہے؟ یہ حقیقت تو اس شعبے کے ریل پیل سے ظاہر ہے۔ ایک وقت تھا کہ 90 فیصد سے زیاد بچے گھروں میں پیدا ہوتے تھے۔ اب 90 فیصد سے زیادہ ہسپتالوں میں چھیر پھاڑ عمل کے درون سے برآمد ہوتے ہیں اور والدین کو ٹھیک ٹھاک جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، ’’آپریشن راہِ راست‘‘ کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کے اِس عمل کا۔
ہمارے کئی معزز ڈاکٹر صاحبان، لیبارٹری اہلکار اور ادویہ ساز کمپنیوں کا تکون اس بات پر خاموشی کے ساتھ متفق و متحد ہے کہ بہرصورت بے چارے مریض کا اور اس کے افسردہ لواحقین کی چمڑی اُدھیڑنی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ ایف ایس سی کے امتحان میں اعلا نمبر لے کر پاس ہونے والے اکثر طالب علم، جو مسیحا بننے کی آرزو میں میڈیکل کالج میں قدم رکھتے ہیں، جب کئی سال پڑھ پڑھ کرمسیحا بن جاتے ہیں، تو پھر اللہ تعالا معاف فرمائیں۔ وہ مسیحا مریض کو ادویہ کا جو نسخہ تھما تے ہیں، اس کا بڑا حصہ مریض کی ضرورت کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ کسی ادویہ ساز کمپنی کی ضرورت، ٹارگٹ اور باہمی ڈیل کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ جس طبی ٹیسٹ کی ہدایت دیتے ہیں وہ مریض کی بیماری کے مطابق نہیں، لیبارٹری میں دستیاب میٹریلز اور ڈیل کے مطابق ہوتے ہیں۔ وہ جوآپریشن کرتے ہیں وہ اکثر بیماری بھانپ کر نہیں، مریض کا مالی استعداد بھانپ کر کرتے ہیں۔ ایسے ڈیل پر ملک اور بیرونِ ملک عالی شان ہوٹلوں میں اجلاس ہوتے ہیں، مشورے ہوتے ہیں، زبانی کلامی اور مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوتے ہیں۔ بے شک اِس شعبے میں کئی نامی گرامی اور ہمدردمسیحا بھی ہیں، جو صحیح معنوں میں خلقِ خدا کی خدمت میں جتے ہوئے ہیں۔ کئی ڈاکٹر اور معاون عملہ کرونا کی وبا میں اپنا کردار بڑے خوش اسلوبی سے نبھاتا چلا آ رہا ہے اور کئیوں نے انسانی زندگی بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔ ہاں، ملک کے دیگر شعبوں کی طرح اس دشت کی سیاہی میں کئی لالچی ڈاکٹروں کے علاوہ نام نہاد عطائی اور جراحوں کی بھرمار بھی ہے ۔
میر کیا سادے ہیں ،بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
60 سال پہلے 1960ء میں ریاستِ سوات کا والی میاں گل جہاں زیب اگر یہ جانتا ہوتا کہ 2021ء میں وادی کا حسین و جمیل دارلخلافہ سیدو شریف اتنا بے ہنگم، غیر منظم اور بے ترتیب شہر بن جائے گا کہ وہ انسانوں کے بجائے رکشوں اور چینگ چیوں کی راج دہانی بنے گا اور بڑی بڑی عمارتوں میں بنے ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوں گے، تو شاید وہ یہ شہر بنانے کا کبھی نہ سوچتا۔
خود کلامی کرتے کرتے ہم ’’کوز ہسپتال‘‘ کے سامنے سے گذرنے لگے، اس ہسپتال کے اندر بھی ایک نئی عمارت کی تعمیر ہوچکی ہے جو جس طرح جدید مشینوں سے لیس ہے، اسی طرح مریضوں سے پیک ہے۔ بائیں طرف کی عمارات کا بھی یہی حال ہے، ہر طرف این سی پی گاڑیوں نے اودھم مچا رکھی ہے، قیامتِ صغرا کے مناظر ہیں، جس سے خلقِ خدا برسرِپیکار ہے۔ مینگورہ شہر کی طرف آتے ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ سوات میوزیم کے عقب میں جس وسیع و عریض بلڈنگ پر گذشتہ چھے سات سال سے کام جاری تھا، آج اس کے ماتھے پر ایک بڑے اور دلکش سائن بورڈ پر ’’لقمان انٹرنیشنل ہسپتال‘‘ لکھا ہواہے۔ سوات میں نیا ہسپتال اور وہ بھی بین الاقوامی سطح کا؟ اِس اُجلی اُجلی دُھلی دُھلی چار منزلہ عمارت کی بیرونی شان وشوکت دیکھ کر اندر کا حال احوال لینے کو جی چاہا۔ بسم اللہ! وسیع کارپارکنگ سے گذرتے ہوئے اندر قدم رکھتے ہیں اور آس پاس دیکھتے ہیں، تو دل و دماغ پر عجیب سی کیفیت چھا جاتی ہے۔ ایک بہترین سٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگ، ری سیپشن پر خوش اخلاق عملہ گائیڈنس کے لیے موجود ۔ نوجوان ڈاکٹر جواد اقبال یہاں کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں، وہ ہمیں ہسپتال کے تمام شعبوں میں لے جاتے ہیں۔ مختلف وارڈز، سہولیات اور ضروری مشینوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ آپریشن تھیٹر، پرائیویٹ رومز، فارمیسی اور کانفرنس ہال کے متعلق فنگر ٹپس پر تفصیلات بتاتے ہیں اور اُن ڈاکٹر صاحبان سے ملواتے ہیں جو مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیت و مہارت کا لوہامنوا چکے ہیں اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہیں۔ دل کو یک گونہ اطمینان ملتا ہے۔ واقعی یہ ہسپتال مریض اور تیماردار دونوں کے لیے جدید سہولیات اور آسانیوں سے مزئین ہے، جہاں عام لوگ انتہائی مناسب داموں اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔ یہاں کا اُو پی ڈی شعبہ ایک چوکس ٹیم کی نگرانی میں چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ جواد صاحب کی ہزاروں خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر خواہش پر دم نکلتا ہے۔اُن کا بڑا دل کرتا ہے کہ یہاں ایک ’’ہیلپ فارمیسی‘‘ بنے، جہاں سے مفت میں یا کم سے کم قیمت پر مستحق مریضوں کو مشورے اور لائف سیونگ ڈرگز کی فراہمی ممکن ہو، رضاکاروں کی ایک مستعد ٹیم ہو جو مریضوں کی خدمت کرے۔ کوئی کینٹین بنے جو صبح و شام چلتا رہے اور غریبوں کو مفت میں اچھاکھانا ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھوک انسان کو تہذیب، اخلاقیات اور آداب سے مبرا کرتی ہے۔ افلاس زدہ بستیوں میں بچے تو ہوتے ہیں، مگر…… بچپن نہیں ہوتا۔
برخوردار جواد اقبال نہ تھکنے والامتحرک انسان ہے، وہ سوات کے ممتاز سماجی کارکن اور نوجوانوں کا نمائندہ ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں ان کی سرگرمیوں اور خدمات سے ایک زمانہ واقف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انسان اپنی قیمتی زندگی نام، پیسا اور طاقت کمانے پر خرچ کرتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے جب یہ نام و نمود، شہرت، طاقت اور پیسا بیکار لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ کسی نے اطمینانِ قلب حاصل کرنا ہو، تو دُکھی انسانیت کی خدمت کرکے دیکھے۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ ایک بہترین منتظم کی حیثیت سے وہ صحت کے شعبے میں بھی ایسا انقلاب برپا کریں گے جو موجودہ مایوس کن صورتِ حال میں مریضوں کے لیے زندگی کی نویدثابت ہو۔
دعا ہے کہ اللہ تعالا اس ہسپتال کی پوری ٹیم کو ’’ایک انار سو بیمار‘‘ والا مقولہ ’’سو اَنار ایک بیمار‘‘ میں تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
آئیے، ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں
آئیے، عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِامروز میں شیرینیِ فردا بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔