سستی سیاست کی تاریخ

میرا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاست میں گندگی کا عنصر دوبارہ آنے والا ہے۔ اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ کچھ ذاتی قسم کا طنز یا پھر مذاق اڑایا جاتا تھا جو کہ بہرحال مناسب نہ تھا اور وہ بھی انتخابی مہم کے دوران میں ہوتا تھا۔ مثلاً اصغر خان عمومی طور پر بھٹو صاحب کو ’’کوہالہ پل پر لٹکانا‘‘ چاہتے تھے۔ اور بھٹو صاحب ان کو ’’آلو خان‘‘ کہہ دیتے تھے۔ یہ ذاتی حملوں کی معراج تھی، لیکن بھلا ہو امیر المومنین حضرت ضیاء الحق (رح) کا جنہوں نے جہاں سیاست میں کرپشن کی آبیاری کی، وہاں بے ہودگی اور بے شرمی کی لہر کو بھی خوب ’’پروموٹ‘‘ کیا۔
جب بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ان کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو ایک طویل عرصہ کے بعد واپس آئی، تو عوام کا جمِ غفیر محترمہ کے ٹرک کے چاروں طرف امڈ آیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ آگاہ انسانی تاریخ میں اس سے بڑے سیاسی جلسے نہ پہلے ہوئے اور نہ آئندہ ہونے کی امید ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ یہی جلسے کچھ حلقوں کے لیے باعثِ خوف ٹھہرے اور انہوں نے اس عوامی سیلاب کو روکنے کے لیے پہلے تو پاکستان بھر سے تمام دائیں بازو کی طاقتوں کو متحد کیا اور پھر ان کی باگیں لاہور کے ایک سطحی ذہن کے تاجر کے ہاتھوں دے دیں۔ ان لوگوں نے اول مرتبہ اسلامی جمہوری پاکستان میں کردار کشی اور ذاتی حملوں کی وہ یک طرفہ جنگ شروع کی کہ اﷲ معاف کرے، انسانیت شرما گئی۔
ایک بہت بڑی خاتون لیڈر کی فوٹو شاپ سے برہنہ تصاویر بناکر باقاعدہ اخبارات میں چھپاوائی گئیں۔ حتی کہ الیکشن کے دنوں باقاعدہ جہاز سے گرائی گئیں۔ پھر بات صرف الیکشن تک نہ رہی بلکہ الیکشن کے بعد اسمبلی میں میڈیا میں تواتر سے گندگی پھیلائی جاتی رہی۔ تب کی اسمبلی، میڈیا حتی کہ جلسۂ عام میں چند ارکان جن میں ایک ’’فرزندِ راولپنڈی‘‘ کے دعوے دار بھی تھے، نے انتہا کر دی۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک دفعہ اسمبلی کیفے میں بیگم نصرت بھٹو مرحومہ نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے مولانا سمیع الحق کو کہا تھا کہ ’’مولانا، نواز شریف کو سمجھاؤ۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ، لیکن بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ وہ کم از کم اپنے نام کی ہی لاج رکھے۔‘‘
اغلب امکان یہی ہے کہ مولانا نے یہ بات بولی ہوگی، تبھی بہت جلد مولانا بارے اسلام آباد کی ایک نائیکہ ’’میڈم طاہرہ‘‘ نامی ایک دم میڈیا میں آگئی اور مولانا کی کردار کشی شروع ہوگئی۔ خیر، یہ مکروہ دور سنہ 97ء تک چلا، تبھی اس میں تحریک انصاف کی انٹری ہوئی۔
اب ماضی میں جو تین فائدے ن لیگ کو تھے، ایک پی پی کا ووٹر نسبتاً کم تعلیم یافتہ تھا، دوم پی پی کی قائد بذاتِ خود ایک جوان خاتون تھیں۔ سوم پی پی مزاجاً اس طریقۂ کار کے خلاف تھی، وہ تینوں عناصر ختم ہوگئے۔ لیکن ن لیگ چوں کہ اس مشق کی عادی تھی، سو انہوں نے یہی طریقہ تحریکِ انصاف پر آزمانے کی کوشش کی، لیکن اب کی بار وہ غلطی کرگئے۔ جواباً ان کی اینٹ پتھر لے آئی اور ایسا گند پڑا کہ شرفا کے گھروں میں اخبارات کا داخلہ بند ہوگیا۔
پھر اسی طریقۂ کار کو مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹتے وقت استعمال کیا۔ اس دوران میں یہ سمجھا گیا کہ شاید ن لیگ کافی سیکھ گئی ہے اور اس کا رویہ مہذب ہونے لگا ہے…… لیکن اب معاملہ اُس شخص والا ہوگیا جو ریچھ کو کمبل سمجھ کر پکڑنے دریا اترا اور پھر یہی صدا دیتا رہ گیا کہ میں کمبل چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔
اب اس گند کی انتہا یہ ہوئی کہ مختلف سیاسی لوگوں کی متنازعہ ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اب تک جو تین مبینہ ویڈیوز جاری کی گئی ہیں، جن میں سے ایک کو ایک خاتون سیاسی راہنما سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اول تو تینوں طرف سے اس کی تردید آئی ہے۔ خاص کر خاتون راہنما کی طرف سے بہت شدید تردید آئی ہے، مگر بالفرض اگر ان ویڈیوز کو بالکل سچ بھی مان لیا جائے، تو عوام کی سطح پر ایک بات قابلِ فکر ہے اور وہ بھی محمد زبیر عمر کے حوالے سے کہ انہوں نے چند خواتین کو نوکری کا جھانسا دے کر آبرو ریزی کی۔ باقی قانون کے مطابق ریاست کام کرے۔ ہم کسی اخلاقی مجرم کی حمایت بالکل نہیں کرتے، لیکن اس کے ساتھ دو عنصر اور بھی مد نظر رکھے جائیں:
ایک…… یہ خفیہ ویڈیو بنانے والے عناصر کون ہیں؟ اور کیا ہمارا عمومی قانون اخلاقیات اور خصوصاً دین اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں جو کہ یقینا نہیں ہے، تو پھر ان لوگوں کی سزا کیا ہو جو اس طرح لوگوں کی پرایویسی پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ یہ کیمرے کون لگاتا ہے؟ کیوں کہ زبیر صاحب والے معاملے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک معروف ہوٹل کا کمرہ ہے۔ اب کیا پتا اس کمرے میں اور کون کون رہا اپنی بیوی کے ساتھ؟ تو کیا دوسروں کی بھی ویڈیوز بنائی گئی ہوں گی؟ اور اگر بنائی گئی ہیں، تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس طرح کی ویڈیوز سیاسی بلیک میلنگ اور انجینئرنگ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ کیا یہ اخلاقی طور پر جائز ہے؟
ایک اور عرض داشت سوشل میڈیا کے ان نام نہاد مومنین بارے ہے جو اس عمل پر بہت شدید ردِ عمل دے رہے ہیں اور اپنی معصومیت میں اس کے تمام زاویہ جات دیکھے سنے بغیر بس ’’سنگسار‘‘ کرنا چاہتے ہیں۔ تو ان دانش وروں اور مفتیوں کے لیے اول تو ہم جناب عیسیٰ علیہ السلام کا وہ مشہور واقعہ لکھنا چاہتے ہیں کہ جس میں انہوں نے ایک عورت کی سنگساری پر کہا تھا کہ ٹھیک ہے اس کو سنگسار کر دو، لیکن اول پتھر وہ مارے جس کا اپنا کردار سو فی صد پاکیزہ ہو۔
دوسری بات، اگر آپ واقعی اسلام کے سچے پیروکار ہیں، تو زور اس بات پر دیں کہ یہ ویڈیوز کس اختیارات، کس حیثیت اور کس قانون سے بنائی گئی ہیں؟ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ جو دوسرے خلیفہ راشد تھے کہ دور میں ایک شخص پر شراب کشید کرنے کا الزام تھا، لیکن ثبوت نہ تھا۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ رات کو خفیہ یہ کام کرتا ہے۔ خلیفہ نے اس کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے رات اس کی دیوار پھلانگ کر اندر گئے اور جب اس پر استفسار کیا، تو آپ نے کہا، تم پر صبح مقدمہ چلانے سے پہلے میں خود عین شاہد کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا تھا۔ تب اس شخص نے مسکرا کر کہا، امیر المومنین مجھ پر تو مقدمہ بنتا ہے یا نہیں، چلتا ہے یا نہیں…… لیکن آپ پر صبح چلنا ہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا، مجھ پر کیوں؟ تو اس نے امیر المومنین کو لاجواب کردیا۔ اس نے کہا، جناب امیر المومنینؓ اول تو یہ مقدمہ ہوگا کہ آپ کس قانون اور اخلاقیات کے تحت میرے گھر کی دیوار پھلانگ کر آئے؟ یہ سن کر خلیفہ نے فوراً اپنی غلطی تسلیم کی اور معذرت کی۔
بھئی، اصل اسلام یہ ہے۔ اسلام اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ آپ لوگوں کی ذاتی ذندگی کی جاسوسی کرتے رہیں اور پھر اس کو سوشل میڈیا پر وائرل کر کے چسکے لگائیں۔ رات سونے سے پہلے ان چند معروف شخصیات کہ جن پر ابھی ثابت ہونا باقی ہے کو سرِ عام لٹکانے کا شدید مطالبہ کر کے سو جائیں…… لیکن چوں کہ یہ معاملہ (غلط یا درست) اب عوام کی نظر میں آگیا ہے، سو اس پر حکومت تین طرح کی فوری کارروائی کرے۔ ان ویڈیوز کی فرازک کروائی جائے کہ واقعی اس کے کردار وہی ہیں کہ جن کا نام اچھالا جا رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ویڈیوز بنانے والے عناصر کون ہیں اور تیسرا ان کو وائرل کرنے والے کون ہیں؟ ان کے مقاصد جو کہ ممکنہ طور پر سٹریٹجک ہی ہو سکتے ہیں، کیا ہیں؟ اور پھر تمام ذمہ داران، کرنے والے، بنانے والے اور پھیلانے والے سب کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔
لیکن ان تمام باتوں سے ہٹ کر ہماری قومی سیاسی قیادت پر یہ ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ وہ اس کلچر کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ تنقید ضرور کریں لیکن پالیسیوں پر یا ان اقدامات پر کہ جن کی وجہ سے عوام بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوں۔ یہ بالکل غلط ہے کہ آپ ذاتی کردار کشی کرتے پھریں، خواہ مخواہ لوگوں کی عزتوں کو نیلام کریں، ویسے بھی اﷲ تعالا نے عیبوں پر پردہ ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ عیبوں کو افشا کرنے کا نہیں۔ جو شخص دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے، خدا اس کے عیبوں پر پردہ رکھتا ہے۔ اگر ہماری سیاسی قیادت اب بھی نہ سمجھی، تو یقین کریں کہ پھر اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں…… شاید! آج کسی ایک کی ویڈیو آئی، کل کسی اور کی آئے گی پرسوں کسی اور کی۔ اور یہ رویہ ہماری سیاست کو تو پراگندہ کرے ہی گا لیکن یہ وہ آگ ہے جس کو لگانے اور جن پر لگائی جائے گی دونوں کو بھسم کر کے رکھ دے گی۔ سو بہتر ہے کہ سیاست میں شائستگی اور تہذیب کو فروغ دیا جائے۔ یہی ہم سب کے لیے سود مند بھی ہے اور بہتر بھی۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔