’’حلوا‘‘ (اسمِ مذکر) کو عام طور پر ’’حلوہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ملتان کے مشہور ’’حلوا‘‘ کے ٹین والے ڈبے پر بھی ’’حافظ ملتانی سوہن حلوہ‘‘ ہی درج ہے۔
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں کے مطابق اس لفظ کا دُرست املا ’’حلوا‘‘ ہے۔
فرہنگِ آصفیہ کے مطابق اس کے معنی ’’میٹھا‘‘، ’’میٹھی چیز‘‘، ’’نرم شیرینی‘‘وغیرہ کے ہیں جب کہ نوراللغات کے مطابق: ’’کھانا جو گھی اور شکر سے بنتا ہے۔‘‘
ذکر شدہ دونوں لغات میں حلوا کی تفصیل میں میر تقی میرؔ کا یہ شعر بھی درج ملتا ہے کہ
مَیں جو نرمی کی تو دونا سر چڑھا وہ بدمعاش
کھانے ہی کو دوڑتا ہے اب مجھے حلوا سمجھ کر