مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ہزاروں لاکھوں سرکاری ملازمین موجود ہیں۔ جن میں کلاس فور سے لے کر گریڈ 22 تک کے افسران، سیکرٹریز، ڈویژنل کمشنرز وغیرہ اعلیٰ عہدوں پر متمکن خطیر تنخواہیں اور مراعات لینے والے ذمہ داران موجود ہیں، لیکن جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے، تو پھر پتا چلتا ہے کہ کوئی حکومت ہے اور نہ کوئی ذمہ دار سرکاری عہدیدار۔ اب دیکھیے پیٹرول ناپید ہے۔ پٹرول پمپوں پر عوام کا جمِ غفیر پیٹرول کے حصول کے لیے بے چین و مضطرب قطاروں میں کھڑا ہے۔ لیکن نہ کوئی ذمہ دار پولیس افسران موجود ہیں اور نہ سرکاری عملہ۔ مرکزی طور پر اجلاس پر اجلاس ہورہے ہیں اور اخباری ذرائع کے مطابق ہر اجلاس میں یہ ہدایت وزیر اعظم صاحب جاری کرتے ہیں کہ پرائیویٹ پیڑول کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کیے جائیں۔ ان کے ذخیروں پر قبضہ کرکے عوام کو پیٹرول کی سپلائی بحال کی جائے، لیکن معوم ہوتا ہے کہ یا تو اس قسم کے اجلاس سرے سے ہوتے نہیں، یا اگر ہوتے بھی ہیں، تو وزیر اعظم کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
کابینہ اجلاس میں بھی پیٹرولیم وزارت اور ڈویژن کو کوتاہی اور غفلت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ کل ایک بار پھر پیٹرولیم ڈویژن کو کوتا ہی غفلت اور نااہلی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔ حالاں کہ بقولِ پیٹرولیم ڈویژن کے اہل کاروں کے نجی کمپنیوں کے سٹورز میں پیٹرول کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے حکومت اور حکمران بے بس ہیں۔ نجی غیر ملکی پیٹرولیم کمپنیوں پر ملکی قوانین لاگو نہیں کرسکتے۔ اگر ایسا ہے تو پھر صاف طور پر عوام کے سامنے اپنی بے بسی اور لاچاری کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟
آٹے کا بحران ہے۔ تندور والوں نے روٹی کا وزن کم کرکے قیمت بڑھا دی ہے۔ آٹے کے بیس کلو تھیلے کی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ ہوا ہے، لیکن نہ ضلعی سطح پر اس بے جا اور ناروا اضافے کو روکنے کے لیے کوئی سرکاری اتھارٹی موجود ہے، اور نہ ہر مرض کی دوا بے شمار اختیارات کے مالک ڈپٹی کمشنر ز اس سلسلے میں کوئی کردار دا کرتے نظر آتے ہیں۔ عوام بے بسی کا شکار ہیں اور کسمپرسی والی مایوسی کے ہاتھوں بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت تو گویا منظر پر موجود ہی نہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب اخباری بیانات اور تصویروں میں نظر آتے ہیں، لیکن موجود اور عوام کے سروں پر مسلط مسائل بھی ان کے بیانات اور تقریروں کا موضوع نہیں۔ شاید انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ مرکز کی ذمہ داری ہے، دیگر مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔
کرونا وائرس کے بارے میں جو غیر ذمہ دارانہ رویہ محکمۂ صحت کے مختلف شعبوں اور ہسپتالوں میں سامنے آرہا ہے، اس کا ادنیٰ نمونہ یہ ہے کہ لواحقین اور پس ماندگان کو اپنی لاش کی بجائے دوسرے شخص کی لاش دی جا رہی ہے۔ قرنطینہ میں رکھے گئے مریضوں کی شکایات سامنے آرہی ہیں کہ عملہ مناسب دیکھ بھال، کھانے پینے اور علاج معالجے کی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام نہیں دے رہا۔ ابھی کرونا وائرس کے حملے جاری ہیں۔ مریضوں اور ہلاکتوں کے اعدادو شمار بڑھ رہے ہیں۔ سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزید خوف و ہراس پھیل رہا ہے، لیکن اوپر سے ڈینگی بخار کی آمد اوسان خطا کر رہی ہے۔ کیوں کہ جب کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات کی یہ صورت حال ہے، تو اگر ڈینگی نے بھی اپنے کالے خطرناک سائے پھیلا دیے، تو پھر کیا ہوگا؟
اس تمام صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اوپر سے نچلے درجے تک حکومتی وزرا، مشیروں اور سرکاری اہل کاروں میں احساسِ ذمہ داری مفقود ہے۔ ایک مسلمان ملک میں کرپشن اور بد عنوانی کی روز افزوں وارداتیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ہم بحیثیتِ قوم روحانی اور اخلاقی طور پر انحطاط و تنزل کے آخری درجے تک پہنچ چکے ہیں۔ محکموں میں رشو ت عام ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس کو اب گناہ تصور کیا جاتا ہے، اور نہ جرم ۔بلکہ دیکھتی آنکھوں اور دن کی روشنی میں دھڑلے سے اپنا حق الخدمت سمجھ کر رشوت وصول کی جاتی ہے۔
پولیس کا محکمہ یوں تو قانون کا رکھوالا اور لوگوں کے جان و مال اور عزت کا محافظ ادارہ ہے، لیکن معاشرے میں جرائم کے اضافے، قتل مقاتلے کے فروغ اور امن و امان کی ابتر صورتحال کی ذمہ داری میں محکمہ پولیس بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔ منشیات کو کھلی چھوٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس اپنے فرائض اور ذمہ داری سے پہلو تہی کر رہی ہے۔
قوم بحیثیتِ مجموعی اخلاقی اور روحانی بحران میں مبتلا ہے۔ عوام سے لے کر اہم مناصب پر فائز ذمہ دار حضرات تک میں اپنے فرائض کا احساس ختم ہو گیا ہے۔ آئین و دستور موجود ہے۔ قوانین موجود ہیں۔ عدالتیں اور انصاف کے ادارے موجود ہیں۔ قانون ساز ادارے موجود ہیں۔ وزارتیں اور وزارتوں کے ذیلی محکمے اور ادارے موجود ہیں لیکن کوئی بھی ادارہ اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ ہاں، اگر کسی ادارے کے ملازمین اور متعلقین کے لیے کوئی اپنا مسئلہ سامنے آتا ہے، تو پھر ادارہ ایک دم فعال اور متحرک ہو جاتا ہے۔ اپنے حقوق اور مراعات کے لیے کام بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ ہڑتالیں اور جلوس بھی نکالتی ہیں۔ اسمبلیوں کا گھیراؤ بھی کیا جاتا ہے۔ عوام کا ناطقہ بھی بند کیا جاتا ہے۔ ہر ادارہ اپنے مفادات و مراعات کے لیے بالکل ایک گینگ اور مافیا کی طرح متحد و یکجان ہوجاتا ہے۔
قوم کو مسائل بھی درپیش ہیں اور بحرانوں سے بھی دوچار ہیں، لیکن اس کے باوجود اپنے مسائل کے لیے لاپروا، بے حس اور غیر ذمہ دار ہے، روز بحرانوں سے دوچار ہوتی ہے، لیکن بحران کے حل کے لیے اپنا منصب، قانون، اخلاقی اور سیاسی کردار ادا نہیں کرتی۔
قوم آٹھ دس لیٹر پیٹرول کے حصول کے لیے پیٹرول پمپوں پر رات جاگ کر گذار سکتی ہے، لیکن مناسب اور مؤثر احتجاج کا شعور و ادراک نہیں رکھتی۔ یہ تو اکیسویں صدی ہے۔ عوامی شعور کی بیداری کا دور ہے۔ اگر قوم اپنے پیٹ کے لیے متحد نہیں ہو سکتی، اگر قوم اپنے جان و مال اور عزت کے تحفظ کے لیے اداروں کے خلاف سڑکوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی، اگر قوم نام نہاد سیاسی عناصر کے کرپشن سکینڈلوں کے خلاف اقدام نہیں کرتی، تو ان مسائل کے حل کے لیے کوئی باہر سے تو نہیں آئے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور یورپ میں نسلی تعصب کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اور لاکھوں کی تعداد میں نکل کر اپنے خلاف منظم جرائم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
برطانیہ میں آج ایک جمہوری عوامی حکومت قائم ہے، اور برطانیہ کو مدر آف ڈیموکریسی کہا جاتا ہے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسی برطانیہ میں مطلق العنان بادشاہی نظام رائج تھا۔ عوام کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ امرا اور لارڈز کو سارے حقوق، اختیارات اور مراعات حاصل تھیں، لیکن جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا، تو عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور شاہی محلات کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ آج اس کا ثمرہ ان کی نسل جمہوریت کی شکل میں دیکھ رہی ہے۔
آپ ظلم سہ کر ظاہم کا سد باب نہیں کرسکتے۔ آپ خاموش بیٹھ کر نا انصافی ختم نہیں کر سکتے۔ اگر آپ اپنے حقوق کے لیے اور ملک میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے قربانی نہیں دے سکتے، تو ظلم و استحصال کا یہ نظام اسی طرح برقرار رہے گا۔ ظالم دندناتے پھرتے رہیں گے اور انصاف منھ چھپائے کونوں کھدروں میں روتی رہے گی۔ سرکاری اہل کار اپنے حقوق کے لیے متحد ہو سکتے ہیں۔ نام نہاد سیاسی عناصر اپنے کرپشن چھپانے کے لیے ایک دوسرے کے معاون ہو سکتے ہیں، تو آپ کیوں اپنے حقوق کے لیے متحد نہیں ہوسکتے؟ اگر آپ موجودہ حکمرانوں سے یہ امید اور توقع لیے بیٹھے ہیں کہ یہ ہمیں از خود حقوق دے د یں گے، اور ملک میں عدل و انصاف کا نظام قائم کریں گے، تو ’’ایں خیال است و محال است و جنوں۔‘‘ حکمران اپنی حکمرانی، عیش و عشرت اور کوس لمن الملک بجانے کے لیے برسرِ اقتدار ہیں۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔