ملک کی بدقسمتی ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے، وہ کہتی ہے کہ ہم سے پہلے والوں نے خزانہ کا صفایا کردیا ہے۔ ہمیں خالی خزانہ ملا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران میں بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ جن لوگوں کی حکومت ہے
٭ ان کے پاس وژن نہیں۔
٭ ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔
٭ ان کے پاس فیلڈ کے ماہرین نہیں۔
اور ہمارے پاس یہ سب کچھ موجود ہے۔ ہم قوم اور ملک کو اس دلدل سے نکال لائیں گے جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں۔
پر جب اقتدار میں آجاتے ہیں، تو پھر وہی رونا کہ اتنے سالوں میں سابقہ حکومتوں نے اتنے قرضے لیے ہیں کہ ہمارے بجٹ کا دوتہائی بلکہ اس سے بھی زیادہ بیرونی قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگیوں میں دینا پڑتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ بات وہی لوگ کرتے ہیں، جو اس سے پہلے بھی حکومت کرچکے ہوتے ہیں، یعنی پانچ یا دس سال پہلے۔ کیوں کہ وہ کہتے رہتے ہیں کہ گذشتہ 60 یا 70 سالوں میں سب نے اس ملک کو لوٹا ہے۔ حالاں کہ وہ خود حکومت تھے، یا حکومت میں تھے۔ اور لوگ ہیں جو ان کی ان باتوں کو سنتے بھی ہیں، سر بھی دھنتے ہیں اور نعرے بھی لگاتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھتا نہیں کہ ان 70 سالوں میں تو تمہاری بھی ایک سے زیادہ بار حکومت آئی ہے، یا تم حکومت میں رہے ہو۔
معنی یہ ہیں کہ یہ ڈائیلاگ ہے، ٹرانس کرپٹ ہے، جو ان کو دیا جاتا ہے کہ یہی کہنا ہے۔ یوں ہم اس کو ایک ’’لائیو ڈراما‘‘ یا ’’لائیو فلم‘‘ کہہ سکتے ہیں جس کے کردار اور اداکار یہی لوگ ہیں جن کو بدقسمتی سے لیڈران یا سیاست دان کہا جاتا ہے، اور اس ڈرامے یا فلم کے تماش بیں وہی لوگ ہیں جن کو عوام کہا جاتا ہے۔ یوں ان کو مختلف نعروں سے جذباتی بناکر گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ان کے درمیان مختلف ناموں اور حوالوں سے تعصبات پیدا کیے گئے ہیں کہ تعصبات پیدا کیے بغیر تو گروپ بنتا نہیں، اور نہ باقی رہ سکتا ہے۔ اس لیے تو یہ راہبران ان تعصبات کو زندہ رکھتے ہیں، ان کو مردہ بلکہ پژمردہ نہیں ہونے دیتے۔ جب کہ خود ان لیڈران کی آپس میں رشتہ داریاں اور خاندانی تعلقات کی حد تک دوستیاں ہوتی ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو ہمیشہ بچاتے رہتے ہیں، اور اگر کسی وقت اس گینگ کے اس میدان میں کوئی نیا بندہ آوارد ہوتا ہے، تو یہ اس پر ایک ساتھ لیکن مختلف حوالوں سے حملہ آور ہوجاتے ہیں کہ یہ کہاں سے ہمارے اس شطرنجی کھیل میں آوارد ہوا۔ یہ تو اجنبی ہے، یہ اندر آیا، تو ہمارے راز افشا ہوں گے اور ہماری اصل شکل و صورت عوام کی نظروں میں آجائے گی۔ یا پھر یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس بندے کو بھی گینگ میں شامل کرلیتے ہیں، تو کبھی رقابت اپنائی جاتی ہے اور کبھی رفاقت کا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ لیکن جو قوتیں ان سب کو اس میدان میں اتارے ہوتی ہیں اور ان سے کھیل کرواتی رہتی ہیں، وہ ان کے لگام کبھی کھینچ لیتی ہیں اور کبھی اسے لوز کرتی ہیں، تا کہ یہ کھیل یوں ہی چلتا رہے۔ ایسے میں قوم اور ملک دونوں کی تباہی ہوتی رہتی ہے۔
بڑی مشکل ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہلِ دانش نے بہت سوچ سے الجھائی ہے
اور اگر عمیق نظر سے دیکھا جائے، تو یہ نئے حکومت والے بھی وہی کرنے لگ جاتے ہیں جو پہلے والے کرتے رہے ہیں، یعنی اگر انہوں نے پرائمری تک کیا ہے، تو یہ مڈل والا حصہ شروع کرجاتے ہیں۔ یعنی ان ریشہ دوانیوں میں ارتقا آجاتی ہے۔ اور اب کے تو میرے خیال میں ہم اگر اس حوالے سے پوسٹ ڈاگ میں نہیں تو پی ایچ ڈی یا ایم ایس کے لیول پر ہیں ۔
یہ تو ایک فطری امر ہے کہ دنیا میں ہر چیز کی ایک حد ہے۔ اسی تک پہنچ کر وہ رک جاتی ہے اور پھر اس کا زوال شروع ہوتا ہے، اور جس بلڈنگ کی بنیادیں کمزور ہوں اور عمارت کا بوجھ بڑا ہو، تو وہ پھر دھڑام سے گرجاتا ہے۔یہ تو مشاہدہ ہے کہ دھڑام سے گرنے والی بلڈنگ کی تباہی بہت بھیانک ہوتی ہے ۔
آج کے عراق، لیبیا، شام وغیرہ پر نظر ڈالیں کہ وہ عمارتیں دھڑام سے گری ہیں، تو کیا ہورہا ہے؟ ہاں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اوروں نے وہاں ایسا کروایا۔ کیا ہوگا لیکن ہم نے کیوں نہیں سوچا کہ جس انداز سے ہم بنیادوں پر یہ بوجھ بڑھا رہے ہیں اور ان کا معمولی سا دھکا اس کا تیا پانچہ کردے گا۔ کیوں کہ اس قسم کی بدانتظامیوں میں تو باہر کی تھوڑی سے تحریک اور امداد جلتی پر تیل کا کام دیتی ہے۔ اس میں پھر ان مسلط لوگوں کا جو حشر ہوتا ہے، وہ دنیا دیکھ لیتی ہے ۔
تو سوچنا یہ ہے کہ ہمارے ہوش کب ٹھکانے لگیں گے؟ یا پھر ہم عہد کرچکے ہیں کہ اب بھی ایک قسم کی غلامی میں تو ہیں، لیکن وہ زیادہ آشکارا نہیں، یا اس کا زیادہ احساس نہیں ہورہا۔ تو کیا اب ہم ایک واضح اور مرئی غلامی میں جانے کے لیے تیاری کررہے ہیں؟ اللہ بچائے رکھے، آمین!
سو یہ پرانا باسی چورن ہم کب تک بیچتے رہیں گے ، کب تک قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے، کیا ہم نے مرنا نہیں ؟ ایک حکومت میں آنے والوں کا کیا رونا۔ جن کی حکومات نہیں آئیں، لیکن وہ اس میدان میں ہیں، تو وہ بھی تو اسی قسم کا کھیل کھیل رہے ہیں کہ لوگوں کو ان کے وجود،ان کے عقیدے یا ان کے قومی یا ذاتی مفادات کے حوالے سے خوف دلاتے رہیں تاکہ وہ تمہارے ساتھ جڑے رہیں اور حکومت میں آئیں نہ آئیں، کچھ پتے تو ہاتھ میں ہوں گے۔ آپ سودا بازی کی پوزیشن میں ہوں گے اور یوں آپ کے مفادات اور چودھراہٹ تو محفوظ رہے گی۔ لیکن ڈرنا اس وقت سے ہے، جب ان لوگوں کو سمجھ آجائے یا ان کو احساس ہوجائے، تو سب سے پہلے ان پر چڑھ دوڑیں گے جنہوں نے مختلف ناموں اور حوالوں سے بے وقوف بنایا تھا، اور اس وقت ان کو کوئی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے ہاتھ کچھ آتا ہے یا نہیں، لیکن کم از کم ان فراڈیوں کے ساتھ دو دو ہاتھ تو کرلیں۔تبھی تو کئی سارے اپنی زندگی قربان کردیتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔اس لیے شاعر سے معذرت کے ساتھ کہ مَیں نے غیرممکن کی جگہ بڑی مشکل کا لفظ لگادیا ہے کہ غیر ممکن کی صورت میں تو کوئی صورت ہوتی نہیں جب کہ مشکل کا حل تو موجود ہوتا ہے۔ البتہ تگ ودو کرنی پڑتی ہے ۔
مشکلے نیست کہ آسان نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔