کھانا کھانے کے بعد ہم واپس پارکنگ ایریا آئے اور تصویریں لینے کے لیے رکے۔ چند تصویریں بنانے کے بعد گاڑی میں بیٹھ گئے اور واپسی کا راستہ لیا۔ جب ہم ہوٹل کے قریب پہنچے، تو مجھے پتا چلا کہ میں نے اپنے کیمرے کا بیگ پارکنگ ہی میں چھوڑ دیا ہے، جس میں ایک زوم لینز مع چارجر اور کیبلز پڑا تھا۔ جب میں نے کہا کہ مجھ سے بیگ رہ گیا ہے، تو سب بہت خفا ہوئے، جب کہ باب کہ چہرے پر غصے کہ آثار نمایاں تھے۔ ہمارے ہوٹل سے ’’کو کوا بیچ‘‘ بہت دور تھا اور اس وقت واپس جانا مشکل تھا، اس لیے مَیں نے فیصلہ کیا کہ بس رہنے دو۔ ہم ہوٹل میں اترے اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اسی طر ح فلوریڈا میں ہمارے دن گزرتے گئے۔ صبح باب کے ساتھ آفس اور پھر شام کو ہوٹل۔ عموماً رات کا کھانا میں اور فاطمہ ساتھ کھایا کرتے تھے اور اکثر پیدل ہوٹل کی آس پاس مارکیٹوں میں جاتے تھے۔ فاطمہ کو امریکہ کے بارے میں کافی معلومات حاصل تھیں، جو مجھ سے شیئر کرتی تھیں۔ وہ تھوڑی سرپھری سی بھی تھی اور ایسی جگہوں کو جانا چاہتی تھیں جہاں عموماً شریف لوگ نہیں جایا کرتے، جب کہ لڑکیاں تو کسی بھی صورت جانا نہیں چاہتیں۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ ’’میامی بیچ‘‘ جانا چاہتی ہیں۔ کیوں کہ میامی بیچ کو سرپھرے نوجوان موج مستیوں اور نائٹ لائف گزارنے جاتے ہیں۔ مجھے چوں کہ ایسی جگہیں دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا، اس لیے میں نے وہاں جانے سے معذرت کی۔ جب باب کو پتا چلا کہ فاطمہ ’’میامی بیچ‘‘ جانا چاہتی ہے، تو اسے یقین نہیں آیا اور پہلے تو فاطمہ کو سمجھایا کہ وہاں جانا اور اکیلے رات گزارنا ٹھیک نہیں۔ تاہم وہ اپنی بات پر ڈٹی رہی اور باب کو بھی مجبور اً اسے اجازت دینا پڑی، تاہم اس نے واضح کیا کہ اگر اس کی بیٹی یا بیٹا میامی بیچ اکیلے جانا چاہتے، تو وہ کبھی اجازت نہ دیتا۔فلوریڈا سے میامی جانے کے لیے دو بسیں بدلنا پڑتی ہیں۔ کیوں کہ وہ جگہ کافی دور ہے۔ ہفتہ کے دن ہم اسے ’’اورلینڈو‘‘ جانے کے لیے بس سٹاپ لے گئے اورخصت کیا، اورلینڈو سے ہی اسے آگے میامی کے لیے بس پکڑنا تھی۔ جب ہم واپس آرہے تھے، تو باب کو فاطمہ کی فکر لاحق تھی اور بار بار ہم سے کہتا کہ یہ لڑکی عجیب ہے۔ واپسی پر باب مجھے اپنے گھر لے گیا، جہاں اس نے مجھ سے کہا کہ کل چڑیا گھر جائیں گے، جس پر میں نے بھی حامی بھرلی۔ باب کے گھر میں کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد وہ مجھے ہوٹل لے آیا۔ گاڑی میں باب نے وقت مقرر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر اتوار کو چرچ جاتے ہیں اور دریا کنارے واک بھی کرتے ہیں۔ اس لیے اگر میں ان کے ساتھ اتوار کو شامل ہونا چاہوں، تو اسے خوشی ہوگی۔ مَیں بھی اتوار کو فارغ تھا۔ اس لیے اثبات میں سر ہلایا۔
باب اور ڈانا ٹھیک صبح 6 بجے مجھے ہوٹل سے پِک کرنے کے لیے آئے۔ ہم پہلے چرچ گئے۔ وہ اس علاقے کے سب سے بڑے چرچ گئے، جہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے مگر جو بات مجھے محسوس ہوئی، وہ یہ تھی کہ ان میں 99 فی صد تعداد بڑے بوڑھوں کی تھی اور نوجوانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ مجھے یک دم خیال آیا کہ ہمارے مسلمانوں میں بھی عباد ت زیادہ تر بڑے بوڑھے ہی کرتے ہیں اور نوجوان نسل کا مذہب اور عبادت کی طرف رجحان کم ہے۔ تقریباً ایک گھنٹا انہوں نے اپنی عبادت کی اور دعائیں مانگیں اور پھر ہم باہر آئے۔ باہر ایک جوان جوڑا لوگوں کی امداد کا منتظر تھا۔بالکل ایسے ہی جیسے ہماری مسجدوں کے باہر کئی بھکاری بھیک مانگنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ہم واک کے لیے گئے، جس کے لیے باب ہمیں انڈین ریورلگون کی طرف لے گیا۔ گاڑی پارک کی اور ہم تینوں یعنی باب، ڈانا اور مَیں سڑک کنارے پل کی طرف جوگنگ کے لیے بنائے گئے سیمنٹ سے بنے ٹریک پر چلنے لگے، جو پل کے ساتھ ساتھ بنایا گیا تھا۔ یہاں پیدل واک، جاگنگ اور دوڑ کو بہت ضرور ی سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر باقاعدہ دوائی کے ساتھ اسے تجویذ کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں ہفتہ اور اتوار کو لوگ باقاعدہ اہتمام کے ساتھ جاگنگ کے لیے آتے ہیں۔ جب ہم نے جاگنگ ختم کی، تو با ب ہمیں پل کے نیچے شکار اور دریا کی سیر کرنے والوں کے لیے بنائے گئے چھوٹی سے پل پر لے گیا، جہاں مقامی لوگ یا تو مچھلیاں پکڑنے کے لیے آتے ہیں یا ڈولفن مچھلیوں کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ڈولفن مچھلیوں کی شرارتیں دیکھیں اور چند لمحے گزارنے کے بعد واپس باب کے گھر گئے، جہاں ہم نے ناشتہ کیا اور پھر چڑیا گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ چوں کہ یہاں پر سپیشل یعنی معذور افراد کے لیے ہر جگہ انٹری مفت ہوتی ہے، اس لیے باب نے کہا کہ میں جیسیکا کے ساتھ جاؤں گا، جس سے مجھے چڑیا گھر کی فیس بچ جائے گی۔
بریوارڈ چڑیا گھر:۔ یوں تو چڑیا گھر پاکستان میں بھی موجود ہیں، مگر فلوریڈا کا ’’بریوارڈ چڑیا گھر‘‘ ان سے یکسر مختلف ہے۔ ایک تو یہاں جانوروں کو قدرے ماحول دوست اور ان کی حقیقی رہائش گاہوں کی طرز پر انہیں وسیع جگہوں میں رکھا گیا ہے، دوسری بات یہ کہ چڑیا گھر حکومت نے نہیں بلکہ یہاں کی مقامی کمیونٹی نے مل کر بنایا ہے اور کمیونٹی ہی اسے چلا رہی ہے۔ یہاں تک کہ چڑیا گھر کے لیے زمین بھی مقامی لوگوں نے دی ہے۔ تیسری منفرد بات یہ کہ چڑیا گھر کے ساتھ تقریباً پانچ سو رضاکار کام کرتے ہیں جو اپنی خدمات مفت دیتے ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ چڑیا گھر میں جانوروں کا اپنا اسپتال ہے جس میں جانوروں کا جدید طریقے سے علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ ہم جب چڑیا گھر میں داخل ہوئے، تو کافی تعداد میں لوگ موجود تھے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ راستے جو زیادہ تر سرخ اینٹوں سے بنائے گئے تھے، پر ان افراد کے نام کندہ کیے گئے تھے، جنہوں نے اس چڑیا گھر میں امداد کی تھی۔ چڑیا گھر میں جگہ بہ جگہ بڑی عمر والے افراد نظر آتے تھے، جو گلابی رنگ کے شرٹس پہنے ہوئے تھے اور یہاں آنے والے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ یہ یہاں کے ریٹائرڈ ملازمین ہیں جو چڑیا گھر میں بغیر معاوضہ کے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح ان کا وقت بھی اچھی طرح گزرجاتا ہے اور ان کے دل کو سکون بھی ملتا ہے۔ امریکی معاشرے میں رضاکارانہ خدمت کا جذبہ بہت زیادہ ہے، جو اپنے معاشرہ کے لیے رضاکارانہ طور پر کئی کام کرتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ کاش ہم میں بھی امریکی معاشرے کی طرح یہ جذبہ ہوتا، تو کتنا اچھا ہوتا۔ خاص کر وہ افراد جو سرکاری نوکریوں سے ریٹائر ہوجاتے ہیں، اور پنشن کی شکل میں ان کا ٹھیک ٹھاک گزارا ہوتا ہے، مگر پھر پر یہ لوگ اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کوئی کام رضاکارانہ طورپر نہیں کرتے۔ میں بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں کہ وہ سرکاری محکموں سے ریٹائر ہوچکے ہیں اور ان کی پنشن ان کے مہینے بھر کے خرچے سے بھی زیادہ ہوتی ہے، مگر وہ مختلف پرائیویٹ اداروں میں تنخواہ پر نوکریاں کرتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ملک سے محبت کے نغمے تو گاتے ہیں، پر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ملک و معاشرے کی فلاح کے لیے کوئی کام رضاکارانہ طورپر کریں۔ بس ہم صرف زبانی جمع خرچ والے لوگ ہیں نہ کہ کام کرنے والے۔ میرا ایک جاننے والا ریٹائرڈ ٹیچر ہے جس کی پنشن 80 ہزار کے لگ بھگ ہے، مگر پھر بھی وہ 10 ہزار روپے ماہانہ کے عوض پرائیوٹ ادارے میں نوکری کرتا ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ہمارے ریٹائرڈ ملازمین اپنے معاشرے کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کوئی اچھا کام کرتے۔
ہم چڑیا گھر کے مختلف حصوں کو دیکھنے کے بعد پرندوں کے حصہ میں گئے، جہاں لوہے کے جال کے بڑے بڑے ہال بنائے گئے تھے جن میں مختلف قسم کے رنگے برنگے پرندوں کو رکھا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ویزیٹرز جب ان پرندوں کو دیکھنے کے لیے ان جال دار ہالوں کے اندر جاتے ہیں اور پرندوں کو قریب سے دیکھتے ہیں، تو یوں سمجھیں کہ ویزیٹرز باقاعدہ پرندوں سے ملتے ہیں، بات کرتے ہیں، پیار کرتے ہیں اور ان کو کھانا بھی کھلاتے ہیں۔ چوں کہ جیسیکا کو توتے پسند تھے، اس لیے ہم توتوں والے حصے میں ٹھہر گئے اور جیسیکا توتوں کو کھانا کھلانے لگی جس میں باب اور ڈانا اس کی مدد کرتے۔ یہاں سے نکل کر ہم ’’ایلیگیٹرز ‘‘ اور مگرمچھوں والے سیکشن سے ہوتے ہوئے چڑیا گھر سے باہر آئے۔ وہاں سے نکل کر ہم ڈانا کے بڑے بھائی کے گھر گئے جہاں چند لمحے گزارنے کے بعد واپس باب کے گھر گئے۔ چوں کہ رات کو فاطمہ نے بس سے اورلینڈو پہنچنا تھا، اس لیے باب نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ڈانا کے ساتھ فاطمہ کو لینے جاؤں۔ ہم نے جب رات کا کھانا ساتھ کھایا، تو میں ڈانا کے ساتھ اورلینڈو کے لیے روانہ ہوا اور تقریباً 115 کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹا اور دس منٹ میں طے کرکے ’’گرے ہاؤنڈ بس سٹیشن‘‘ پہنچے اور انتظار کرنے لگے۔ مَیں سٹیشن کے اندر گیا جب کہ ڈانا گاڑی میں ہمارا نتظار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد بس آئی اور فاطمہ دوسری سواریوں کے ساتھ اتری، جنہیں میں نے دور سے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔ ہم گاڑی میں چڑھے اور فلوریڈا کی طرف روانہ ہوئے، تو راستے ہی میں، مَیں نے سوچا کہ امریکہ کے لوگ اپنے مہمانوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں، جو انہیں لینے کے لیے 115 کلومیٹر کا راستہ طے کرکے گھر لاتے ہیں۔ یہ اگر ہم ہوتے، تو صاف کہتے کہ وہی سے دوسری گاڑی میں چڑھ کر آجائیں۔ (جاری ہے)

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔