مشہور فرانسیسی مفکر اور مصنف والٹیئر نے ایک جگہ ایک برہمن اور ایک بوڑھی عورت کا قصہ بیان کیا ہے۔ برہمن جو اپنے ہونے پر گلہ مند ہے۔ کہتا ہے کہ کاش، مَیں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔ والٹیئراس سے معلوم کرتا ہے کہ ’’آخر کیوں؟‘‘ وہ جواب دیتا ہے: ’’دیکھو میں گذشتہ چالیس سال سے علم سیکھ رہا ہوں، لیکن اب ایسا لگتا ہے، جیسے مَیں نے صرف وقت ضائع کیا ہے۔ مجھے یہ تو پتہ ہے کہ میرا یہ وجود مادہ کا مرہونِ منت ہے۔ لیکن ابھی تک مجھے اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا ہے کہ ذہن میں خیال کہاں سے وارد ہوتے ہیں؟ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ فہم و ادراک، چلنے پھرنے اور ہضم ہونے جیسا سادہ عمل ہے۔ یوں سوچنا ایسا ہے۔ جیسے ہاتھ چیزوں کو پکڑتے ہیں۔ مَیں بہت بولتا ہوں اور اکثر بعد میں مجھے بے حد شرمندگی ہوتی ہے کہ پتہ نہیں میں کیا کیا بولتا رہا۔‘‘
والٹیئر کہتا ہے کہ اسی دن مجھے برہمن کے پڑوس میں رہنے والی ایک بڑھیا سے بات کرنے کا موقع ملا۔ مَیں نے اس سے پوچھا کہ کیا اسے کبھی اس با ت پر پریشانی محسوس ہوئی ہے کہ اس کی روح کس چیز سے بنی ہے؟ لیکن وہ عورت اس سوال کا مطلب ہی نہیں سمجھی۔ دراصل جن سوالات نے برہمن کی زندگی کو ذہنی کرب و اذیت کا ایک تسلسل بنا دیا تھا۔ بڑھیا نے اپنی پوری زندگی اس میں کسی ایک سوال پر بھی ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا تھا۔ وہ ’’وشنو‘‘ کی مکمل طاقت پر ایمان رکھتی تھی۔ اس کا صرف ایک ہی ارمان تھا کہ گنگا میا کے پوتر جل میں سے کچھ قطرے اسے مل جائیں اور بس۔ جب والٹیئر نے جاکر برہمن کو اس بات پر مطعون کیا اور اسے اس کے مسلسل دکھی رہنے پر شرم دلائی۔ جب کہ اس کے پڑوس میں ہی ایک بڑھیا سوچنے و وچنے کے کسی چکر میں پڑے بغیر قلبی اطمینان کی دولت سے بھر پور زندگی گزار رہی ہے، تو برہمن نے آہ بھرتے ہوئے جواب دیا تمہاری بات ٹھیک ہے۔ مَیں نے خود بھی ہزاروں بار خود سے کہا ہے کہ اگر مَیں بھی اس بڑھیا کی طرح لا علم ہوتا، تو خوب مزے میں کٹتی۔ لیکن پھر بھی اپنے اس دکھ کے بدلے میں اس خوشی کو لینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ والٹیئر کہتا ہے۔ مَیں اس جواب سے بے حد متاثر ہوا۔
اسی طرح کا ایک قول گوتم بدھ سے بھی منقول ہے، جس میں جاننے کو دکھ قرار دیا گیا ہے۔ یہ بہر حال ایک حقیقت ہے کہ جاننا انسان کو دکھ سے ہم کنار کردیتا ہے۔ شائد اس لیے چند صحابہ کو ہنستے دیکھ کر حضورؐ نے ان سے فرمایا: ’’اگر تم وہ کچھ جانتے جو مَیں جانتا ہوں، تو تم بہت کم ہنستے اور زیادہ روتے۔‘‘ جاننے کا مطلب ہے دوسروں کی آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں تک رسائی، ہر طرف کتنی غم زدہ کردینے والی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ میرؔ نے کیا خوب کہا ہے:
نہ درد مندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد
اگر آنکھیں دیکھنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر کان سننے پر آمادہ ہوں۔ اگر دل دوسروں کے درد پر تڑپنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، تو دکھ سے دوہرا کردینے والی کہانیوں کی کیا کمی ہے؟ قدم قدم پر جائے ماتم موجود ہے۔ اگر آدمی اس سلسلے میں زیادہ جستجو و کاوش کے لیے تیار نہ ہو، تو کسی بھی اخبار کا پہلا اور آخری صفحہ دیکھ لینے سے بھی آدمی دکھ میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔ حالاں کہ یہ تو اصل کتاب میں سے ایک چھوٹے اقتباس سے زیادہ نہیں ہوگا۔ انور مسعود نے جو لوگوں کو ہنستے ہنسانے کے لیے مشہور ہیں، کیا اچھی بات کہی ہے:
کتنے آنسو ہیں جو پلکوں پہ نہیں آسکتے
کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں
اس لیے جو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں، وہ خوش نہیں رہ سکتے۔ مزے میں تو وہی لوگ رہتے ہیں، جو آنکھوں سے زیادہ کام نہیں لیتے، کانوں کے دروازے صرف قہقہوں کے لیے کھلے رکھتے ہیں، دل کو سینے سے نکال کر اس کی جگہ سنگِ سرخ کی کوئی سیل رکھ لیتے ہیں، سڑکوں پر کوڑا کرکٹ کے لیے رکھے گئے ڈرموں میں سے سب کی نظر بچا کر روٹی کا کوئی ٹکڑا تلاش کرنے والے بچے انہیں نظر نہیں آتے، ان لوگوں نے اپنے دلوں کی طرح اپنی گاڑیوں کے شیشے بھی سیاہ کرلیے ہیں، وہ جن سے جوان جہان بیٹے چھن جاتے ہیں، ان ماؤں کی جاں بلب آہیں، ان کے محلات کی سنگیں دیواروں سے صرف سر ٹکراسکتی ہیں، وہ جو عین جوانی میں بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھ لیتی ہیں، ان کی بے چارگی کا دلاسہ کسی حکومت کے پاس نہیں ہے، چاہے وہ سیاسی ٹھگوں کی چال بازیوں سے ہر بار شکست کھا جانے والے عوام کے کاندھوں پر سوار ہوکر اسلام آباد تک پہنچنے والوں کی ہو یا ان کی ہو، جن کے بوٹوں کی چاپ سے ایوانِ اقتدار لرزہ بر اندام رہتے ہیں۔ دراصل حکومت ملتے ہی سب کچھ جاننے والے بھی انجان بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اقتدار کا مزہ اسی وقت لوٹا جاسکتا ہے، جب آنکھوں پر پردے ہوں، کان بند ہوں اور دلوں پر بے حسی کے بڑے بڑے پتھر رکھ دیے گئے ہوں۔

………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔