پولیس اسٹیشن میں نیا تھانیدار اپنی تعیناتی کے ساتھ ہی محرر سے رجسٹر منگواتا ہے۔ مقدمات کی تفصیل دیکھتا ہے۔ اشتہاریوں کی فہرست ملاحظہ کرتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مقدمات میں ملوث لوگوں کی الگ سے لسٹ مرتب کرتا ہے۔ تھانے کی حدود میں موجود کن ٹٹوں کے بارے معلومات لیتا ہے۔ سیاسی اور حکومتی بااثر لوگوں سمیت مقامی صحافیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے اور پھر ہر ایک طبقہ سے اس کی سماجی اور قانونی حیثیت کے بارے میں تعارفی ملاقاتیں شروع کر دیتا ہے۔ نِکّے بدمعاشوں کو حاضر کر کے اِنتظار کروانے کے بعد وارننگ دیتا ہے۔ بڑے بدمعاشوں، سیاسی اور دیگر بااثر لوگوں سے سماجی تعلق بناتا ہے۔ اشتہاریوں کی گرفتاری کی ہدایات جاری کرتا ہے۔ چند دِن کی پریکٹس کے بعد تھانے کے معاملات اسی طرح چلنے شروع ہو جاتے ہیں جس طرح پہلے سے چل رہے تھے۔
قارئین، پاکستان کی مثال بھی دراصل اُس تھانے کی سی ہے جہاں ماضی میں ہر نیا تھانیدار ایسے ہی تجربات دھراتا آیا اور پھر چند روز بعد ہی ہاتھ کھڑے کر دیے کہ یہ میرے بس کا کام نہیں ہے۔ یہاں نئے تعینات تقریباً سبھی تھانیداروں نے اختیارات ملتے ہی ’’احتساب‘‘ کا نعرۂ بلند کیا، لیکن پھر جلد ہی کن ٹٹوں، بدمعاشوں، اشتہاریوں اور بااثروں کے آگے بلیک میل ہو کر اس وجہ سے ہتھیار ڈال دیے کہ کہیں کل کلاں یہ ’’ٹرائیکا‘‘ ہماری کرپشن کے خلاف ہی گواہ نہ بن جائے۔ عمران خان وزیراعظم بنے، تو سوشل میڈیا پر اُن کے حمایتیوں کی جانب سے یہ ’’ٹرینڈ‘‘ چلا کہ جب کسی علاقے میں تگڑا اور ایمان دار تھانیدار آ جائے، تو علاقے کے سارے چور اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ بعد ازاں یہ تاثر بھی پھیلایا گیا کہ تھانیدار صرف ایمان دار ہی نہیں بلکہ صادق و امین بھی ہے۔
قارئین، ایسا ’’ٹرینڈ‘‘ دراصل دو وجوہات کی بنا پر چلایا گیا۔ ایک یہ کہ کپتان نے ماضی میں یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ حکومت میں آ کر وہ کرپٹ لوگوں کا نہ صرف احتساب کرے گا، بلکہ اُن سے لوٹی ہوئی دولت بھی واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے گا جب کہ حکومت ملتے ہی اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ احتساب کا شفاف عمل جاری رہے گا، اور کسی کو ’’این آر اُو‘‘ بھی نہیں ملے گا جب کہ دوسری وجہ اُن کے وزیراعظم بننے کے بعد پی ٹی آئی مخالف اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھا ہو کر کپتان کو یہ ’’وارننگ‘‘ دینا کہ وہ تھانیدار بننے کی کوشش ہرگز نہ کرے۔ اگر تھانیدار بنا، تو اپنا حشر بھی دیکھ لے گا۔
بہرحال حریف اپوزیشن جماعتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی کپتان تھانیدار بن چکا۔ اب وہ ایماندار اور تگڑا ہے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم کپتان کی تھانیداری والے تھانے کی حدود میں بسنے والا ہر اَمن پسند اور حب الوطن فرد یہی خواہش رکھتا ہے کہ بے شک کوئی ’’جمہوریت کو خطرے‘‘ کا راگ اَلاپنا شروع کر دے، یا پھر ’’سیاسی انتقام‘‘ کا تاثر دینے کی کوشش کرے۔
اب نئے تھانیدار کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور اُسے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ آیا وہ واقعی میں ایماندار ہے، یا پھر ماضی میں ویسے ہی اپنے ایماندار ہونے کی پھلجڑیاں چھوڑتا رہا اور چند روز بعد اپنے پیشروؤں کی طرح وہ بھی ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے۔
بس تھوڑا سا انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ ’’اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟‘‘

………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔