پشاور بی آر ٹی وقت کی ضرورت ہے

لاہور اور ملتانی میٹرو کے خلاف عمران خان کا بیانیہ مخالفانہ تھا۔ انہوں نے لاہور میٹرو کو جنگلہ بس کا نام دیا تھا۔ عمرانی بیانیے میں یہ بھی شامل تھا کہ شریف برادران محض کمیشن اور سریہ بیچنے کے لیے ایسے پراجیکٹ لاتے ہیں۔ نواز کی حکومت نے لاہور میٹرو 2008-13 میں بنایا جب کہ پنڈی اسلام آباد اور ملتان میٹروز 2013ء اور 2018ء کے دورانیہ میں بنے۔ پشاور میٹرو ایک عظیم منصوبہ ہے جس میں پشاور، نوشہرہ، مردان اور چارسدہ شامل ہیں، لیکن اس کا پہلا فیز پشاور میں بننا تھا۔ پاکستان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بالخصوص جو ام البلاد یعنی میٹرو پولیٹن سِٹیز ہیں، ان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہر سال موجودہ انفراسٹراکچر پر گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پشاور میٹرو کا قیام ناگزیر تھا لیکن عمرانی بیانیے کی وجہ سے کوئی اس کے لیے کمر کسنا نہیں چاہتا تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب اس کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے بمشکل عمران خان کو اس پراجیکٹ کے لیے راضی کیا، لیکن اس پراجیکٹ کو شروع کرانے میں تاخیر ہوئی۔ لینڈ ایکوزیشن، ڈیزائن اور بعد ازاں کنسٹرکشن کے دوران میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ منصوبے کے پلاننگ انجینئرز کو شائد تجربہ نہیں تھا، یا ڈیزائنرز کی غلطیاں تھیں، لیکن پراجیکٹ کے لیے جو ٹائم کیلکولیٹڈ تھا، اس ٹائم فریم میں اس کا بننا ناممکن تھا۔ پچھلے سال یہی مارچ کا مہینا تھا۔ مَیں نے بی آر ٹی پراجیکٹ کے کچھ حصے دیکھے، تو پوسٹ شیئر کی کہ ’’پشاور میٹرو مئی 2018ء کے اواخر تک دو طریقوں سے بن سکتی ہے۔ ایک، جنات کے ذریعے، دوم فرشتوں کے ذریعے۔‘‘ میرے بعض انجینئر دوستوں نے میری بات کی مخالفت بھی کی، لیکن میرا اِسی کام کا تجربہ ہے۔ کنسٹرکشن بہت مشکل کام ہے، بالخصوص جب یہ مصروف ترین شاہراہوں کے بیچوں بیچ ہو۔ جن میں کمیونٹی اِشوز آتے ہوں۔ زیرِ زمین صاف پانی و بلدیہ کے پانی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ کمیونی کیشن لائنز بچھی ہوتی ہیں۔ بجلی کی ترسیلی لائز کو منیج کرنا ہوتا ہے۔ باقی موسمی حالات سے بھی کنسٹرکشن فلو متاثر ہوتی رہتی ہے۔ بعض جگہوں پر سیاسی ایشوز بھی آ سکتے ہیں۔ مثلاً ’’تہکال میں سیاسی ناراضی کی وجہ سے ڈیزائن میں تبدیلیاں ہوئیں اور انڈر پاسز کی جگہ فلائی اووز تعمیر کرانے پڑے ۔ اسی طرح گل بہار و فردوس میں سکھوں کے ٹائم کے انڈر گراؤنڈ سینی ٹیشن سسٹم کی وجہ سے ڈیزائن چینج کرنا پڑا۔ حالیہ دنوں میں بعض سٹیشنز پر چوڑائی کے مسائل آئے جس سے ڈیمولیشن اور ری کنسٹرکشن کرنا پڑا۔
قارئین، پشاور میٹرو وقت کی ضرورت تھی اور ہے۔ پشاور کی آبادی اس وقت 42 لاکھ ہے۔ اس کی شاہراہوں پر جو دباؤ تھا وہ آئندہ پانچ سالوں میں مزید بڑھنا تھا۔ پاکستان میں سٹی پلاننگ کا باقاعدہ محکمہ نہیں جو پانچ سال یا دس سالہ پلاننگ کرکے انفراسٹراکچر اور سروسز پر اپنی سفارشات دے سکے۔ پشاور کے لیے حالیہ میٹرو پراجیکٹ وقت کی ضرورت تھی، لیکن حالیہ پراجیکٹ مس مینج ہوا ہے۔ دنیا کے اہم شہروں میں اس وقت میٹروز بن رہے ہیں۔ سعودی شہر ریاض میں بھی تقریباً 20 بلین ڈالرز کا پراجیکٹ بن رہا ہے، بلکہ 2019ء میں چالو بھی ہوجائے گا۔ پشاور میٹرو پراجیکٹ ’’پراپرلی پلان‘‘ نہ ہو سکا۔ بعض جگہوں پر اس پراجیکٹ کی وجہ سے مشکلات ہیں۔ مثلا ’’یونیورسٹی روڈ پر مصروف ترین کمرشل پلازے اور دکانیں ہیں، شادی ہال ہیں۔ لیکن میٹرو کی وجہ سے اب یونیورسٹی روڈ سے سروس روڈز کا خاتمہ ہوا ہے، جس سے مستقبل میں ٹریفک فلو میں زبردست مسائل ہوں گے۔ کیوں کہ کسی ایک گاڑی کی خرابی سے کئی کلومیٹر تک فلو متاثر ہوگی۔ جس سے آئے روز ٹریفک جیم کے مسئلے ہوں گے۔ میرے خیال میں اگر یونیورسٹی روڈ کے لیے سروس روڈ بنائی جائے، تو میٹرو میں دوسرا کوئی بڑا نقص نہیں۔ جہاں جہاں انڈر پاسز ہیں، وہاں پمپ سٹیشنز ہوں گے اور وہاں کئی جنریٹرز بھی ہوں گے، یعنی بلیک آوٹ کی صورت میں بھی پانی نکالنے میں مسئلہ نہیں ہوگا۔ بعض دوست انڈر پاسز کے پانی کی تصاویر سوشل میڈیا پر فلوٹ کر رہے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ ابھی پمپس سٹیشن انسٹال نہیں ہوئے۔ اس کے بعد یہ مسئلہ نہیں ہوگا۔ کبھی کبھار قدرتی آفت میں ہو بھی سکتا ہے۔ اس طرح ہم امریکہ اور سعودی انڈرپاسز میں دیکھ سکتے ہیں۔ باقی میٹرو پراجیکٹ کی مخالفت کی گنجائش نہیں۔ البتہ ایک بات پر مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ ا سطرح کے پراجیکٹس کا عمران مخالف تھا۔ وہ پی ٹی آئی کو برداشت کرنا ہوگا۔ میٹرو کا بجٹ اگر بڑھا ہے، تو اس کی وجہ افراطِ زر بھی ہے۔ بی آر ٹی مستقبل کے لیے ضروری تھا۔ اس کی اِفادیت عارضی اذیت سے زیادہ ہے۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔