آخرِکار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے کا ڈول ڈالنے میں کامیاب ہوہی گئی۔ دسمبر اور جنوری میں خیبر پختون خوا میں بلدیاتی الیکشن کے دونوں مراحل مکمل ہوجائیں گے۔ مارچ میں پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کا آغاز ہوگا۔ بعد ازاں اسلام آباد اور آزاد جموں و کشمیر میں بھی بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں گے۔
اس مرتبہ ہونے والے بلدیاتی الیکشن قومی سیاسی منظر نامہ پر دور رس اثرات مرتب کریں گے۔ کیوں کہ بلدیاتی الیکشن کے خاتمہ کے چند ماہ بعد ملک گیر سطح پر عام الیکشن کے لیے مہم شروع ہوجائے گی۔
پنجاب جو قومی سیاست کا محور ہے…… وہاں بہت ہی طاقت ور اور موثر بلدیاتی ادارے وجود پانے والے ہیں۔ تازہ دم اور براہِ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے مئیر ملکی سیاست کا رُخ متعین کریں گے۔
حکمران جماعت تحریکِ انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں منتخب کونسلر اور میئر ہوں گے…… جن کی سیاست کا خمیر براہِ راست عوامی رابطوں سے اُٹھا ہوگا۔ رائے عامہ سے رابطہ اور گلی محلہ کی سطح تک کونسلروں کی رسائی انہیں سیاسی جماعتوں ہی نہیں بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بنا دیں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیاست ان کے گرد گھومے گی۔ بلدیاتی الیکشن میں میدان مارنے والوں کی کامیابی کے امکانات عام الیکشن میں روشن ہوں گے۔
سیاسی جماعتوں ہی نہیں بلکہ روایتی سیاست دانوں کو بھی عام الیکشن میں کامیابی کے لیے شہری حکومتوں کے منتخب سربراہوں اور کونسلروں کی زبردست مدد درکار ہوگی۔ اس طرح اقتدار کی مرکزیت تمام ہوجائے گی۔ اختیارات نچلی سطح پر عام لوگوں تک منتقل ہوجائیں گے۔
کونسلر گلی محلوں میں رہتے ہیں۔ وہ سیاست کی ساری حرکیات سے آشنا ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر قومی یا صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں کامیابی کا تصور دیوانے کا خواب ہوگا۔ اس عمل میں عام شہری اور سیاسی کارکن کی حیثیت سیاسی نظام میں موثر ہوجائے گی۔
بلدیاتی الیکشن کے نتیجے میں پہلی بار ایک ایسا نظام حکومت قائم ہوگا…… جو حقیقی معنوں میں جمہوری نظام کہلانے کا مستحق ہوگا۔ مغرب جس کی کوکھ سے جمہوریت نے جنم لیا…… وہاں بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں۔ ارکانِ پارلیمنٹ کا کام ’’قانون سازی‘‘ اور ملک کی دفاعی، خارجہ اور تجارتی پالیسی بنانا ہوتا ہے نہ کہ گلی محلہ کی سڑکوں اور فلٹر پلانٹ کا افتتاح۔
امید ہے کہ نیا بلدیاتی نظام کم ازکم بڑے شہروں میں جوہری تبدیلی لاسکے گا۔ براہِ راست منتخب ہونے والے میئر کا شہر یا ضلع کے تمام بڑے انتظامی اداروں پر کنٹرول ہوگا۔ میئرز کو مالیاتی وسائل بھی دستیاب ہوں گے جو وہ مقامی سطح پر شہری خدمات فراہم کرنے یا انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لیے خرچ کرسکیں گے۔ اس طرح شہروں میں صحت، صفائی اور دیگر سہولتوں کی فراہمی میں نمایاں بہتری آئے گی اور لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا۔
بلدیاتی اداروں کو جواب دہی کا خوف یا احساس بھی ہوتا ہے۔ لوگ عدالتوں میں مقامی حکومتوں کے خلاف شکایات لے جاتے ہیں۔ عدالتیں بھی شہریوں کی چارہ جوئی کے لیے احکامات جاری کرتی ہیں۔ دیگر اداروں میں بھی انہیں جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ میڈیا پر بھی بلدیاتی اداروں کی کارکردگی ہر روز زیرِ بحث آتی ہے۔ اس طرح بلدیاتی ادارے مسلسل اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہیں اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی مدد اور سیاسی تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔
بلدیاتی اداروں میں کارکردگی کی بنیاد پر مقامی سطح کے مئیر یا کونسلر قومی سیاست میں کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ ترکی کے موجودہ صدر کی سیاست کا ستارہ اس وقت چمکا جب انہوں نے استنبول کے میئر کے طور پر متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ میئر اور کونسلر اعلا کارکردگی دکھانے اور اچھی سیاسی ساکھ یا سیاسی شناخت بنانے کی کوشش کرتے ہیں…… تاکہ ان کے لیے مزید سیاسی کامیابیوں کے دروازے کھل سکیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کارکردگی ہی وہ کسوٹی ہے جس پر عوام اپنے نمائندوں کو پرکھتے ہیں۔
میئر شہر کا منتخب چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے…… جو شہر کے روزمرہ کے کاموں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ مختلف محکموں کے سربراہان بشمول پولیس چیف تقرر اور برخاست کرسکتا ہے۔ میئر سالانہ بجٹ پیش کرتا ہے۔ شہروں کی ترقی، رہائش، نقل و حمل کی پالیسیاں، پارکوں یا لائبریریوں کا قیام اور منشیات کے مسائل پر قابو پانے کی پالیسیاں بنانے کا وہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ براہِ راست عوام کو جواب دہ بھی ہوتا ہے اور لوگوں کی اس تک رسائی بھی ہوتی ہے۔
بلدیاتی الیکشن میں ہزاروں کی تعداد میں کونسلروں نے منتخب ہونا ہے۔ اس لیے غالب امکان ہے کہ سیاسی جماعتیں، اشرافیہ، کاروباری شخصیات اور روایتی سیاسی بزرجمہروں کے رشتے داروں کے علاوہ کچھ نہ کچھ عام سیاسی کارکن بھی پارٹیوں کے ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ چوں کہ کونسلروں کے حلقۂ انتخاب سائز اور آبادی کے اعتبار سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کافی امکان ہے کہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن بھی سیاسی ہنگامہ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں میں ہونے والے عام الیکشن نے عام شہریوں یا سیاسی کارکنوں کی سیاست میں داخلہ کے امکانات کم کیے ہیں۔ کیوں کہ اس دوران میں کاروباری طبقات اور اہلِ ثروت نے سیاست کو اپنے شکنجہ میں بری طرح جھکڑ رکھا ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے ذریعے یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں عام کارکنوں کے لیے بھی گنجایش پیدا کریں یا انہیں کرنا پڑے گی۔
ظاہر ہے کہ راتوں رات بلدیاتی ادارے غیر معمولی کارنامہ سرانجام نہ دے پائیں گے…… لیکن یہ ایک لمبے سفر کی ابتدا ضرور ہے۔ ان کی استعدادِ کار میں اضافہ کے لیے بھی حکومت کو جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
بلدیاتی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے عملہ کو بھی ضروری تربیت چاہیے…… تاکہ وہ جدید شہری ضرورتوں اور تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکیں۔ سرعت کے ساتھ عوامی شکایات کا اِزالہ کرسکیں۔ روایتی کاہلی اور سستی کی بجائے عوام کی مشکلات کے جلد اِزالہ کے لیے کام کریں۔ دستیاب وسائل میں سے کیسے مالی وسائل اکھٹے کریں اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کریں…… بہت سارے مروجہ قوانین کو بھی بدلنے اور نئے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر بلدیاتی اداروں یا ضلعی انتظامیہ کے متعلقہ قوانین اب اپنی اِفادیت کھو چکے ہیں۔
خیبر پختون خوا سے آنے والی اطلاعات کے مطابق نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی بلدیاتی الیکشن میں قسمت آزمانے میدان میں اترچکی ہیں۔ گھر گھر امیدوار اور ان کے حامی ووٹ مانگنے جا رہے ہیں۔ جنازوں اور شادیوں میں سیاسی کارکنان کی شرکت میں معتد بہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اس طرح سیاسی جماعتیں ایک بار پھر عوام کے دروازے پر کھڑی ہیں اور ان سے نمائندگی کا ’’مینڈیٹ‘‘ مانگ رہی ہیں۔
اس طرح پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے الیکشن میں ایک دلچسپ اور بڑا معرکہ برپا ہوگا۔ اس معرکہ میں سرخ رُو ہونے والوں کے لیے جنرل الیکشن میں کامیابی کے امکانات کو جھٹلانا مشکل ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔