فلسفہ کی تاریخ (اٹھارواں لیکچر)

Comrade Taimur Rehman

تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا سولھواں لیکچر ہے، مدیر)

٭ اناگزگورس (Anaxagoras):۔ اناگزگورس کی تقریباً 510 قبلِ مسیح میں پیدایش ہوتی ہے اور انتقال ہوتا ہے 428 قبلِ مسیح میں۔
اناگزگورس وہ فلسفی ہے کہ جس نے فلسفے کو ’’ایتھنز‘‘ (Athens) پہنچایا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اناگزگورس، سقراط کا استاد بھی تھا اور اگراناگزگورس نہ ہوتا، تو فلسفے کے بنیادی خیالات کبھی ایتھنز نہ جاتے۔ اس طرح شاید سقراط، افلاطون اور ارسطو پیدا نہ ہوتے۔
اناگزگورس علمِ فلسفہ اور سیکھنے کا اس قدر شوقین تھا کہ اُس نے ایک لمبا سفر طے کیا کہ مَیں دنیا دیکھنا چاہتا ہوں۔ مَیں دنیا کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ جب سفر سے واپس آیا، تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی تقریباً ساری جائیداد تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ اُس کی زمین بنجر ہوچکی ہے۔ اُس کا کسی نے خیال نہیں رکھا…… مگر اُس کو اِس چیز کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ کہتا تھا کہ بے شک یہ جائیدادیں میرے پاس نہ ہوں، مجھے اِس کی کوئی ضرورت نہیں۔ مَیں صرف فلسفہ سیکھنا چاہتا ہوں۔ مَیں صرف علم سیکھنا چاہتا ہوں۔
اُس کے ایک دوست نے اُس کی ملکیت کے تباہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا، تو اُس نے یہ کہا کہ یا تو یہ بچتی، یا مَیں بچتا۔ اب یہ تباہ ہوئی ہے۔ اب مَیں اپنے اصل عشق یعنی فلسفے کی طرف جا سکتا ہوں۔
ایتھنز کا ایک سیاست دان تھا، جس کا نام ’’پیریکلیز‘‘ (Pericles) تھا۔ وہ بہت ہی اہم سیاست دان تھا۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ ایتھنز میں جو محدود جمہوریتی نظام، جس میں غلام اور عورتیں حصہ نہیں لے سکتیں، اشرافیہ اور ڈیموس حصہ لے سکتے ہیں، وہ چاہتا تھا کہ اُس جمہوری نظام میں رہتے ہوئے لوگ کچھ تہذیب سیکھیں، آرٹ کے بارے میں سیکھیں، فلسفے کے بارے میں سیکھیں، کچھ دنیا اور سائنس کے بارے میں سیکھیں۔ لہٰذا اُس نے اناگزگورس کو دعوت دی کہ کیوں نہ آپ ایتھنز آئیں اور یہاں آکر اپنا فلسفہ پڑھائیں۔ یوں اناگزگورس ایتھنز گیا اور اُس نے وہاں کے لوگوں کو پڑھایا۔
اناگزگورس دراصل ایک ’’پلورلسٹ‘‘ (Pluralist) بھی تھا اور "Eleatic School of Thought” سے بھی متاثر تھا ۔ مثال کے طور پر وہ بھی یہی سمجھتا تھا کہ جو چیز ہم حس سے سمجھ رہے ہیں، آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، وہ ضروری نہیں کہ 100 فی صد درست ہو۔ وہ سمجھتا تھا کہ جس چیز کو ہم تبدیلی سمجھ رہے ہیں، وہ اصل میں تبدیلی نہیں، مگر وہی مادہ دوبارہ سے، کسی اور تناسب سے، کسی طرح سے مل رہا ہے، لہٰذا مادہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی، مگر مادے کس طرح ایک دوسرے سے مکس ہو رہے ہیں، شاید اس میں تھوڑی بہت تبدیلی ہے۔
اناگزگورس یہ کہتا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ جو بنیادی طور پر مادہ ہے، وہ یا ختم ہوجائے، یا پیدا ہو جائے۔ جو مادہ ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گا۔ اُس میں تھوڑی بہت رد و بدل، تبدیلی کے نتیجے میں ہمیں وہ مادہ مختلف شکل میں نظر آتا ہے۔
وہ کہتا تھا: "There is everything in everything.” یعنی ہر شے کے اندر ہر شے پائی جاتی ہے۔ اِس سے اُس کی اصل مراد یہ تھی کہ اگر مادے کی ایک چیز دیکھیں، کوئی بھی چیز جیسے سیب، پتھر وغیرہ تو وہ عناصر جو پتھر کے اندر ہیں، وہی عناصر کھانے کے اندر بھی ہیں اور مختلف تناسب میں مکس ہوئے ہیں، مگر ہر عنصر جو ہے وہ ہر چیز کے اندر پایا جاتا ہے۔
اناگزگورس کو یہ خیال اس حوالے سے آیا کہ جب ہم کھانا کھاتے ہیں، تو کھانے کے اندر جو اجزا ہیں، وہ ہمارے جسم کے اندر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے بال لمبے ہوجاتے ہیں ہماری ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں، وغیرہ۔ تو اناگزگورس کا یہ خیال تھا کہ کھانے کے اندر ہڈیاں ہوں گی، بال ہوں گے، کھانے کے اندر خون ہوگا، کھانے کے اندر جلد ہوگی، وہ تمام چیزیں جو ہماری جسم میں بن جاتی ہیں، وہ دراصل کھانے کے اندر تھوڑی تھوڑی مقدار میں موجود ہوتی ہیں۔
آج ہمیں پتا ہے کہ واقعی یہ تھیری (Theory) درست تو نہیں، بہرحال اناگزگورس مگر اس حوالے سے درست کَہ رہا ہے کہ کھانے کے اندر جو اجزا ہیں، وہ ہمارے جسم میں تبدیل ہوتے ہیں۔
اُس نے اِس بات کو مزید بڑھا دیا۔ اُس نے کہا کہ ہر چیز میں ہر چیز ہے۔ اِس کی دوسری مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ برف بالکل سفید ہوتی ہے، مگر جب وہ پگھل جاتی ہے، تو اکثر وہ کالے پانی میں تبدیل ہو جاتی ہے، تو اناگزگورس نے کہا کہ اس سفید برف کے اندر کالا پانی پہلے سے موجود تھا۔ سفید کے اندر کالا موجود ہے، اور کالے کے اندر سفید موجود ہے۔ ہر شے، ہر شے میں شامل ہے۔ اسی وجہ سے چیزیں دوسری چیزوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
شاید سب سے اہم اناگزگورس کا جو خیال تھا، وہ "Nous” کا "The mind” تھا۔ اناگزگورس کا یہ کہنا تھا کہ کائنات کے اندر تمام عناصر کا مرکب (Mixture) وہ ایک "Nous” ایک "Mind” اُن کو عمل "Action” میں لے کر آتا ہے۔ اس کو مرکب میں لے کر آتا ہے۔ اُن کو گھماتا ہے، اور جس کے نتیجے میں ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں۔
یہ "Mind” جو ہے، وہ اناگزگورس کے لیے دیوتا نہیں تھا، بلکہ ایک قسم کا اصول تھا۔ ایک قدرتی قانون تھا، جس کے تحت یہ دنیا چلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اناگزگورس کے لیے دنیا ایک "Mechanism” تھی۔ ایک میکانیسٹک (Mechanistic) تفصیل تھی، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا کہ جسے یونان کے لوگ سمجھتے تھے کہ سورج اور چاند دیوتا ہیں…… مگر اناگزگورس اُن کو بالکل دیوتا نہیں مانتا تھا بلکہ اُس کا یہ کہنا تھا کہ تمام سیارے جو ہمیں آسمان کے اندر نظر آتے ہیں، درحقیقت وہ اسی مادے کے بنے ہوئے ہیں کہ جس مادے سے یہ دنیا بنی ہوئی ہے۔
اب یہ تصور ایتھنز کے لوگوں کو بالکل پسند نہیں آیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، یہ تو آپ نے ہمارے دیوتا کے بارے میں بڑی عجیب و غریب قسم کی بات کی۔
اناگزگورس نے کہا کہ سورج ایک "Metal” یعنی ایک لوہا ہے، جو بالکل لال اور گرم ہو چکا ہے اور جو کہ جل رہا ہے۔
اسی طرح اُس نے کہا کہ چاند بھی اس چیز سے بنا ہے، جس چیز سے دنیا بنی ہے اور یہ کہ چاند جو ہے، وہ سورج کی روشنی کو "Reflect” کر رہا ہے، اور ہم دراصل چاند پر سورج کی روشنی دیکھ رہے ہیں۔ اُس نے کہا کہ ستارے جو ہیں وہ ایک قسم کا آگ بگولا پتھر ہیں۔ اُس نے "Eclipses” کے حوالے سے بھی بالکل درست کہا کہ جب چاند سورج کے سامنے آجائے، تو پھر ایک "Eclipse” پیدا ہوتا ہے، یا زمین کا جو سایہ ہے، وہ چاند پہ گر جائے، تو بھی ایک "Eclipse” پیدا ہوجاتا ہے۔
یہ سب باتیں جب اُس نے کہیں، تو ایتھنز کے لوگ اُس کے سخت خلاف ہوگئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں آج مکمل طور پر سائنسی طور پر ثابت ہوچکی ہیں۔ اُس کی ایک بھی بات غلط نہیں ہوئی۔ واقعی سورج اس مادے سے بنا ہوا ہے، جس مادے سے یہ دنیا بنی ہوئی ہے۔ اِس طرح چاند اور ستارے بھی اُس مادے سے بنے ہوئے ہیں، جس سے یہ دنیا بنی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ سورج پر آگ لگی ہوئی ہے۔ سورج کی روشنی ہی چاند پر نظر آتی ہے۔ جو ستارے ہمیں نظر آتے ہیں، وہ بھی درحقیقت مختلف قسم کے سورج ہیں۔ وہاں پر بھی آگ ہے اور وہی آگ ہمیں نظر آتی ہے۔ یہ سب باتیں درست ہیں…… مگر ایتھنز کے لوگ اُس کے سخت مخالف ہوئے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ دہریہ ہے۔ اِس نے ہمارے مذہب کے خلاف بات کی ہے۔ لہٰذا اِس کو مار دیں گے۔ اس کو "Choice” دی گئی کہ یا تو تم زہر کا پیالا پی کے مر جاو، یا پھر ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ لہٰذا اناگزَگورس نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے، پھر مَیں چلتا ہوں۔ یوں اُس نے ایتھنز کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ اُس نے ایتھنز کو تو چھوڑ دیا، مگر اُس کا اثر دیکھیں کہ اُس نے پورے ایتھنز اور پوری دنیا پر غلبہ دکھایا۔ خاص طور پر ایتھنز کے ایک شہری جس کا نام ’’سقراط‘‘ (Socrates) تھا، پر بہت زیادہ اثر کیا۔ وہ کیسے ……؟ تو وہ یوں کہ اناگزگورس کا شاگرد آرکیلیس (Archelaus) تھا، اُس کا جو آگے شاگرد تھا وہ سقراط تھا۔
اولین 17 لیکچر بالترتیب نیچے دیے گئے لنکس پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
4)  https://lafzuna.com/history/s-33254/
5)  https://lafzuna.com/history/s-33273/
6)  https://lafzuna.com/history/s-33289/
7)  https://lafzuna.com/history/s-33302/
8)  https://lafzuna.com/history/s-33342/
9)  https://lafzuna.com/history/s-33356/
10) https://lafzuna.com/history/s-33370/
11) https://lafzuna.com/history/s-33390/
12) https://lafzuna.com/history/s-33423/
13) https://lafzuna.com/history/s-33460/
14) https://lafzuna.com/history/s-33497/
15) https://lafzuna.com/history/s-33524/
16) https://lafzuna.com/history/s-33549/
17) https://lafzuna.com/history/s-33591/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے