ابوبکر صدیق کی یاد میں

Blogger Sajid Aman
 حاجی عمر سیٹھ ایک کاروباری شخصیت اور صاحبِ جائیداد انسان تھے۔ اُن کے پاس اُس وقت دولت کی فراوانی تھی، جب پیسے بہت کم لوگوں کے پاس تھے۔ اُن کی دو بیویوں سے پانچ بیٹے تھے: صدیق اکبر حاجی صاحب، عبدالغفار پاپا، سید غفار، عثمان غنی لالا اور علی حیدر لالا۔ 
صدیق اکبر حاجی صاحب، مجاہد وکیل صاحب کے والد تھے۔ اوائلِ عمری سے خوب صورت، خوش لباس، خوش گفتار اور نیک انسان تھے۔ کہتے ہیں کہ اُن کے قریبی دوست بھی اُن میں کوئی خامی نہیں ڈھونڈ پاتے تھے۔ جماعتِ اسلامی سے منسلک رہے۔ 
عثمان غنی لالا نے دو شادیاں کی تھیں۔ دوسری شادی کے فیصلے اور اِس کے اثرات اُن کی اور اُن کی اولاد کی زندگی کے لیے اچھے نہ تھے۔ 
عثمان غنی لالا ایک عرصہ شیرین صاحب کے پاس کام کرتے رہے۔ شیرین صاحب مردان میں تقسیمِ ہند سے پہلے سب سے بڑے اور خوش حال تاجر کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ تقسیمِ ہند نے اُن پر برے اثرات ڈالے۔ تقسیم اس پورے خاندان کے لیے منحوس ثابت ہوئی۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ وہ کاروبار میں قسمت کے دھنی تھے۔ 
شیرین سیٹھ، حاجی غمے، کریم داد اور شیرداد کے بھائی تھے۔ زرداد فیملی میں سب لوگ نمایاں ہیں، لیکن پیرداد ڈاکٹر صاحب، شمشیر علی وکیل صاحب، ظفر اللہ دادا، سکندر پیر داد، لیڈی ڈاکٹر شوکت حیدر علی اور ڈاکٹر نجیب نئی نسل کے لیے پہچان میں آسانی پیدا کریں گے۔ 
عثمان غنی لالا کے تین بیٹے تھے: ابوبکر، شعیب اور ظفر علی۔ ابوبکر (مرحوم) ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔ جب وہ مردان سے واپس آئے، جہاں اُن کے والد صاحب روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے۔ واپس آکر الگ پہچان بنائی۔ 
ابوبکر صاحب وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور سیاسی بصیرت انتہا کی تھی۔ بہت جامع اور مدلل گفت گو کرتے تھے۔ اُن کے ساتھ وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ بہت قریبی دوست ’’صدیق‘‘ کے نام سے بھی بلاتے تھے۔ دھمے لہجے کے مہذب اور مہمان نواز انسان تھے۔ اگر وہ ادیب ہوتے، یا لکھنے کا شوق ہوتا، تو اُن کا لکھا ہوا مستند ہوتا۔ اُن کے تجزیے بہت جان دار ہوتے۔ اُن کی دور اندیشی صحیح ثابت ہو رہی ہوتی۔ 
یہ مینگورہ شہر کے اصلی باشندوں کی داستان ہے، جس پر وقت نے پردے ڈالے اور اب نئی نسل کے سامنے یہ ایک پُرہجوم اور بے ہنگم شہر ہے۔ یہ شہر پیار اور ضبط سے آباد تھا۔ یہاں اخلاقیات کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ علم دوستی، صبر، برداشت اور پہچان اس کا خاصا تھی۔ یہ شہر آباد ہوتا رہا اور اس کی بنیادوں میں شہر کی اقدار دفن ہوتی رہیں۔ آخرِکار اس شہر کی پہچان مٹ گئی۔ ایک کارپوریٹ شہر نے ایک انسان دوست، ماحول دوست تہذیبی شہر کو منوں مٹی تلے دبا دیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے