قارئین! آپ جانتے ہیں کہ آج کل سوشل میڈیا کا استعمال بہت سستا اور عام ہوچکا ہے۔ خاص کر نوجوان نسل میں اس کا استعمال اس حد تک بڑھ چکاہے کہ باقاعدہ طور پر یہ ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کرچکا ہے، جسے سوشل میڈیا ایڈکشن (سوشل میڈیا کی لت یا عادت) کہا جاتا ہے۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
اس حوالے سے کئی احباب نے مجھے بتایا ہے کہ بچہ اُس وقت تک کھانا نہیں کھاتا، جب تک اُس کو موبائل نہ تھمایا جائے۔
اس طرح سیکڑوں نوجوان (طلبہ و طالبات) نے انٹرویو کے دوران میں تصدیق کی ہے کہ اُن کے دن کا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر ہی صرف ہوتا ہے۔ سوتے ہوئے آخری کام موبائل پر نظر ڈالنا ہوتا ہے اور آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلا کام موبائل کو اُٹھاکر چیک کرنا ہوتا ہے۔
کئی ایک ایسے بھی ملے جنھوں نے یہاں تک بتایا کہ وہ غسل خانے میں بھی موبائل دیکھتے رہتے ہیں…… اور اگر تنہائی میسر آئے، تو پھر سوشل میڈیا کی دنیا میں جابستے ہیں…… جہاں کا احوال کم از کم میں کالم میں رقم نہیں کرسکتا۔
قارئین! آپ لوگوں نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ اکثر نوجوان تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ اُن کا اُوڑھنا بچھونا سوشل میڈیا ہی ہے۔ نتیجتاً اُن کی نفسیات اور جسمانی افعال میں بدترین قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں…… جن کے بڑھنے سے جیتا جاگتا انسان سوشل میڈیائی ایڈکشن کا مریض بن جاتا ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب تک پاکستان جیسے ممالک میں اکثر لوگ اس ایڈکشن کو بیماری سمجھتے ہی نہیں۔ حالاں کہ تحقیقات سے ثابت ہے کہ یہ بیماری نفسانی، جنسیاتی اور جسمانی ہر لحاظ سے نقصان دہ ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اب باقاعدہ اس بیماری کا علاج کیا جاتا ہے، جس کو "Social Media Detox” کہا جاتا ہے۔ مَیں مذکورہ انگریزی اصطلاح کے لیے اُردو میں موزوں اصطلاح ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ لہٰذا آسانی کے لیے اس کا مطلب یہ سمجھیے کہ آپ سوشل میڈیا کی لت یا عادت سے کیسے چھٹکارا پائیں گے؟
دیگر متعلقہ مضامین:
سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ وقت صرف کرنے والی قوم 
سوشل میڈیا خود پسندوں کی جنت 
سوشل میڈیا اور اخلاقی اقدار 
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ہم (فکاہیہ تحریر) 
سوشل میڈیا کی بیماری 
مغربی دنیا میں اس کے ڈھیر سارے طریقے رائج ہیں…… لیکن عالمی سطح پر یکساں کوئی تسلیم شدہ علاج اس لیے میسر نہیں کہ سوشل میڈیا ایڈکشن کا علاج منحصر کرتا ہے کہ کون کس عمر میں کس حد تک سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے ا ور اس پر کیا کیا دیکھتا ہے؟
مَیں نے اس معاملے میں ذاتی طور پر ایک تجربہ کیا ہے۔ آپ کے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ اس کو بروئے کار لاکر آپ سوشل میڈیا ایڈکشن میں مبتلا مریضوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں۔ اس تجربے کے لیے ایک کلاس کا انتخاب کیا گیا، جہاں 30 سے 40 طلبہ و طالبات بیک وقت موجود رہتے تھے۔ چار مہینوں کا یہ تجربہ تھا، مگر ایک مہینے میں صرف چار بار یعنی ہفتے میں ایک بار میں اس کلاس کے ساتھ تین گھنٹوں کا وقت صرف کرتا تھا۔ مذکورہ تین گھنٹوں میں اُن کو نصابی سبق تو پڑھاتا رہتا تھا، لیکن سختی سے پابندی یہ تھی کہ کلاس کے دوران میں یعنی ہفتے میں صرف تین گھنٹوں کے لیے کوئی بھی موبائل استعمال نہیں کرے گا۔ البتہ موبائل چوں کہ بند نہیں بلکہ ’’سائلنٹ موڈ‘‘ پر رکھے جاتے تھے، اس لیے گھر (امی، ابو، بھائی یا شادی شدہ ہونے کی صورت میں بیوی یا خاوند) سے فون آئے، تو خاموشی سے کلاس سے باہر جاکے فون پر بات کی جاسکتی تھی۔
پہلے پہل تو اس کام سے طلبہ و طالبات سخت بے زار تھے، مگر حیران کن طور پر چار مہینوں کے بعد آخری کلاس میں جب ان سے پورے سمسٹر بارے مثبت یا منفی تاثرات کی خبر لی، تو حیران کن طور پر اکثر بچوں کا یہی کہنا تھا کہ موبائل سے دور رہنا آغاز میں بہت مشکل تھا، مگر اب ہم جان گئے ہیں کہ موبائل کے بغیر بھی زندگی گزر سکتی ہے، بلکہ خوب صورت طریقے سے گزر سکتی ہے۔
اس تجربے سے بچے یہ بھی جان گئے کہ اگر ہم سوشل میڈیا کے لیے خاص وقت مقرر کریں اور اس کی پابندی کریں، تو ہم ڈھیر سارے نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔
کم عمر بچوں کو اس بیماری سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ اس پر کسی اور نشست میں تفصیلی بات کریں گے۔ یار زندہ، صحبت باقی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔