آثارِ قدیمہ کی بات آتی ہے، تو میرا ذہن فوراً اس وڈیو کی طرف جاتا ہے جو میں نے اپنے بچپن میں پڑوسیوں کے ہاں وی سی آر پر دیکھی تھی۔ اس وڈیو میں قومِ عاد وثمود اور مدائن صالح وغیرہ کے مقامات انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کیے گئے تھے۔ بھاری بھرکم آواز والا شخص اس وڈیو پر وائس اوور کے ساتھ مقامات کی تفصیلات بیان کر رہا ہوتا ہے، تو دیکھنے اور سننے والے کو مزا آتا ہے۔ فرعون کی لاش کہاں اور کیسے محفوظ ہے، قوم ثمود کی غار نما عمارات اور بابل وغیرہ کے کھنڈرات بیتی اقوام کی کہانیاں بیان کررہے ہوتے ہیں۔ میں اب سوچتا ہوں کہ اگر قرآن نہ ہوتا، حق کی طرف رہنمائی کرنے والے انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث نہ ہوتے، ہر دور میں حق وباطل کی کشمکش اور مآل کار حق کی فتح نہ ہوتی، تو آج میں ضرور ان اقوام کی حمایت پر کمر بستہ ہوچکا ہوتا جنہیں آسمانی آفات نے آگھیرا۔ میں گھوم پھر کر یہی راگ الاپتا ہوں کہ ہمیں اپنی ماضی کے اوراق وہاں سے شروع کرنے چاہئیں جہاں قومِ ثمود، قومِ صالح اور قومِ شعیب و قوم فرعون وغیرہ نے اپنی تہذیب کو پروان چڑھایا۔ مصر کو فراعنہ نے آباد کیا۔ مدین کو وہاں کے باسیوں نے استحکام بخشا۔ قومِ ثمود نے کس قدر عالی شان تاریخ پائی اور پھر طیطس اور سیزر نے کتنے دھڑلے کے ساتھ بادشاہت کی؟
میرے پاس قرآن نہ ہوتا، تو میں کیسے جھٹلاتا کہ تاریخ کا ہر وہ صفحہ جو فرعون کی تعریف میں لکھا گیا ہے، جھوٹ ہے۔ تاریخ ہمیں کس قدر بھول بھلیوں سے گزارتی ہے اور پھر ایک مقام پر لاکھڑا کرکے کہتی ہے کہ جو تم جاننا چاہتے تھے، یہ سب وہی ہے۔ آگے ہمیں کوئی راستہ نہیں ملتا جس کے واسطے حق تک پہنچا جاسکے ۔ تاریخ دان کے فہم سے قطعِ نظر کسی دانائے مغرب کی یہ ایک بات بہت دل کو لگی جو ایک قید خانے میں دنیا کی تاریخ لکھنے بیٹھ گیا۔ دورانِ کتابت قید خانے کے باہر سے کسی حادثے کی آوازیں آئیں۔ لکھنے والے نے مختلف لوگوں سے دریافت کیا کہ واقعہ کیا تھا اور اس کے محرکات کیا تھے؟ ہر بتلانے والے نے دوسرے سے مختلف جواب دیا۔ ان بیانات میں اتنا تضاد تھا کہ سب کو کسی خاص نکتے پر جمع کرنا ممکن معلوم نہیں ہو رہا تھا۔ لکھنے والے نے یہ کہہ کر اپنی بیاض بند کی کہ اگر میں کھڑکی کے پاس ہونے والے وقوعے کی صحیح صورتِ حال جاننے میں کامیاب نہ ہوسکا، تو دنیا کی تاریخ میں اتنی صداقت کہاں سے پیدا کرپاؤں گا جسے میں مرتب کررہا ہوں؟
تاریخ کی صداقت اور تاریخ دان کی دیانت سے قطعِ نظر قرآن نے تاریخی وقوعے سے زیادہ اس کے سبق پر زور دیا ہے۔ مثلاً فرعون کا اصل نام کیا تھا؟ یہ مصر کے کس علاقے میں تھا اور جس دریا میں فرعون اپنی فوج کے ساتھ غرقاب ہوا اس دریا کا نام کیا تھا؟ ان سب باتوں کو چھوڑ کر قرآن نے ہمیں یہ بتایا کہ فرعون ایک بادشاہ تھا۔ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرایا جو کہ اللہ کے برحق نبی تھے اور ساتھ میں اس بات کا اعادہ ضرور کیا کہ یہ اللہ کی سنت ہے کہ جو بھی سرکش اپنی دنیاوی غرور میں سرمست ہوکر اللہ کے حکم کو ٹھکرائے گا، وہ سزا ضرور پائے گا۔ سو جب یہ دنیا اللہ کی ملکیت ہے، تو اللہ کی حاکمیت کو ماننا بھی ہر ایک پر لازم ہے۔
دورِ حاضر میں اسلامی تاریخ پر سوال اٹھائے جانے کا رواج چل پڑا ہے۔ اوپر کی مثالوں میں یہ بتانا مقصود تھا کہ تاریخ دان دیانتدار ہوسکتا ہے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے واقعات کو درست انداز سے نہیں لکھا ہو۔ اس سے بھول چوک ہوئی ہو یا جس سے اس نے روایت کی ہے وہ روایت کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو، وغیرہ۔ اسلامی تاریخ میں بھی ان باتوں کا احتمال موجود ہے، لیکن دیگر مؤرخین اور مسلم تاریخ دانوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ وہ تاریخ میں حتی الامکان روایت کو حدیث کی روایت کے طرز پر پیش کرتے ہیں اور یہ بات محتاجِ بیان نہیں کہ محدثین نے راویوں کے حوالے سے جتنے سخت اصول اپنائے ہیں، دنیا میں یہ اعزاز کسی بھی قوم یا فرد کو حاصل نہیں رہا۔ روایت کو پرکھنے اور اسے طے شدہ اصول کی کسوٹی پر رکھنے کے بعد ہی اسکی صحت یا ضعف کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قریب قریب مسلم مؤرخین نے بھی روایت کا یہی انداز اپنایا ہے، لیکن پھر بھی کہیں کہیں واقعہ میں رنگ ڈالنے کے واسطے کچھ کمزور روایات بھی کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں۔
اب اسی تناظر میں شاید یہ بات کہنا خلافِ ادب نہیں ہوگا کہ بعض اہلِ علم اسلامی ادوار کے سرخیل مؤرخین کو یک قلم غلط قرار دیتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہماری تاریخ محمد بن قاسمؒ سے نہیں بلکہ راجہ داہر اور اس سے پہلے کے ثقافتی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دلیری بھی کسی طوفان سے کم نہیں کہ دراصل محمد بن قاسم ایک غارت گر تھا، جس نے سندھ کی حکومتوں اور راجواڑوں کو تاراج کرنے اور یہاں خلافتِ بنو امیہ کا جھنڈا لہرانے کی منت پوری کرلی۔ یہ دلیری اس دلیل کے ساتھ اور بھی ستم ڈھاتی ہے کہ ایک بہن کی فریاد کے واقعے کو گھڑ کر سندھ پر حملے کو جواز فراہم کیا گیا اور یہ سب کہتے ہوئے میرے محترم اہلِ علم یہ بھول جاتے ہیں کہ قرونِ اولیٰ کے یہ فاتحین جیسے بھی تھے لیکن اس قدر انسانی خون کے پیاسے ہرگز نہ تھے کہ وہ محض خلافت کی سرحدات کو وسعت دینے کے لیے اپنی طاقت اور دانائی کو خرچ کریں۔ ضرور ان حادثات کے پیچھے کچھ اور بھی عوامل کارفرماہوں گے اور یوں وقت کے مسلسل پرورش کے ساتھ ہی یہ حادثات رونما ہوچکے ہوں گے۔
میں طوالت کی وجہ سے یہاں غزنوی اور سلطان محمد فاتح جیسے کرداروں کا تذکرہ نہیں کرسکتا۔ ورنہ ان کے کردار کو بھی تاریخ کی بے ثباتی اور تاریخ دانوں کی بے اعتباری کے نذر کرکے دھندلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ چلیں، یہ تو لمبی بحث ہے کہ ان میں سے کون صحیح تھا اور کون غلط؟ اس سے قبل یہ بات قابلِ بحث ہے کہ جن مؤرخین کا حوالہ دیا جاتا ہے، خود ان کی حیثیت تاریخ میں کیا ہے؟ کون ایسا ہے جس کا نام مستند ہے اور کون ایسا ہے جس کی ذات ہی شکوک کے پردوں تلے دبی ہوئی ہے۔ سو اٹھیے اور تحقیق کی ازسرنو شروعات کیجیے!

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔