عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور اصرار ہے۔ الیکشن کمیشن کی پُھرتیاں عروج پر ہیں۔ ریاستی اداروں کی خفیہ رپورٹس اور سب کچھ اپنی جگہ موجود اور فعال ہیں۔ بس ایک کمی ہے اور وہ ہے عوامی بے زاری۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
یہ بات تو واضح ہے کہ ایک پارٹی معتوب ٹھہرا دی گئی ہے۔ سیاسی گناہ گاروں اور بے گناہوں کو ایک ہی ترازو سے تولا جارہا ہے۔ فی الحال پارٹی کے کچھ لوگوں نے سمجھ داری دکھائی اور اُس ’’خاص دن‘‘ کی پُرزور مذمت کرکے خود کو بچالیا، مگر اکثریت اُن کی ہے جنھوں نے عزیمت پر رخصت کو ترجیح دی اور پسِ زِنداں چلے گئے۔ پھر سوشل میڈیا کی ایک الگ دنیا آباد ہے، جہاں پر کمپنی اور پارٹی دونوں فریقوں کے سپاہی صف آرا ہیں۔ سچ کا قتل ہورہا ہے اور پراپیگنڈے کی زبردست بازار گرمی ہے۔ لفظوں کا خون ہو رہا اور جملے نوحہ کناں ہیں۔
اس ساری صورتِ حال کا انجام کیا ہوگا؟ کسی دانش ور کے پاس معقول تجویز موجود ہے اور نہ کسی سیاسی حکیم کے پاس مجرب نسخہ۔
حالات کا فیصلہ یہی لگ رہا ہے کہ کمپنی اور پارٹی دونوں شائد بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔ آزاد انتخابات ہوتے ہیں، تو کمپنی کو خدشہ ہے کہ شاید خاموش عوامی بے زاری کچھ اور جلوے نہ دکھا دے…… اور اگر انتخابات نہیں ہوتے، تو پارٹی کو ڈر ہے کہ پابندِ سلاسل لیڈر اور ورکرز کی زندگی مزید اجیرن ہوجائے گی۔
کمپنی اور پارٹی کے مابین اس چپقلش نے ملکی سیاسی نظام کو ’’بریکس‘‘ لگا دیے ہیں۔ بے یقینی کی ایسی فضا بن گئی ہے، گویا موت کا سا منظر سامنے ہے۔ معتوب پارٹی کی خاموشی تو قابلِ فہم ہے، مگر مجموعی طور پر تمام سیاسی ماحول پر طاری یہ سکوت حیران کُن نہیں، بلکہ پریشان کُن بھی ہے۔
یہ بات سب مانتے ہیں کہ معتوب پارٹی فی الحال مقبولیت میں عدیم النظیر ہے۔ شاید یہی مقبولیت ہے جس کو قبولیت عطا نہیں ہورہی اور یوں معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں 
غیر منطقی طور پر سیاست زدہ معاشرہ 
سیاست میں بچوں کو گھسیٹنا کہاں کا انصاف ہے! 
سیاست اب عبادت نہیں رہی 
بنیادی اقدار سے انجان سیاست دان  
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ملک میں اس وقت 175 رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں، جن میں اگر ایک معتوب ہے، تو باقی پارٹیوں کو کیا ہوا ہے؟ پیپلز پارٹی، ن لیگ، جمعیت العلمائے اسلام، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر معروف پارٹیوں میں سے بھی چند ایک نے سیاسی مہم جوئی کا آغاز بے شک کیا ہے، لیکن وہ بھی چیونٹی کی رفتار سے…… جب کہ اکثر پارٹیاں ابھی تک عوام کے درمیان نہیں نکلیں۔وجوہات کچھ بھی ہوسکتی ہیں…… لیکن سیاسی پارٹیوں کی اس خاموشی یا بے زاری نے مجموعی سیاسی ماحول پر جو اثر چھوڑا ہے۔ اس کا کل خلاصہ یہی ہوسکتا ہے کہ شاید یا تو سیاسی پارٹیوں کو اب بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ 8 فروری کو ہی انتخابات ہوں گے…… یا یہ بھی ممکن ہے کہ اکثر پارٹیاں عوام کا سامنا کرنے سے کترا رہی ہوں۔ خاص کر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام جو حالیہ اختتام پذیر 16 ماہی اتحادی حکومت میں سب سے اہم اور بڑے شراکت دار تھے۔ ان 16 مہینوں میں عام لوگوں کو مہنگائی اور سیاسی بداعتمادی کے جو جھٹکے لگے ہیں، اُن کے اثرات ابھی تک نمایاں ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معتوب پارٹی کی حکومت میں سب کچھ عوامی امنگوں کے مطابق تھا…… لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ جب وہ حکومت تقریباً چار سال رہی تھی، اور غیر مقبولیت کے عروج پر تھی، اور ممکن تھا کہ 5 سال کی تکمیل پر عوامی ووٹ کے ذریعے انتقام یا احتساب کرتی۔ تب عدمِ اعتماد کے لیے پرانے آزمودہ گھوڑوں کو بروئے کار لاکر جو کھیل کھیلا گیا، اُس نے نہ صرف تب کی ’’غیر مقبولیت‘‘ کو آج حد درجہ ’’مقبولیت‘‘ عطا کی ہے، بلکہ آزمودہ پرانے چہروں کے لیے عوام میں نکلنا مشکل کردیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ 8 فروری کو انتخابات ہوتے بھی ہیں یا نہیں…… کیوں کہ اب بھی 99 فی صد خدشات نہ ہونے کے ہیں۔ اگر یہ خدشات درست نکلتے ہیں، تو ملک کا آئینی، سیاسی اور قانونی نظام کہاں کھڑا ہوگا…… اور اگر انتخابات ہوتے ہیں، لیکن بند کمروں میں کی گئی منصوبہ بندی ناکام ہوجاتی ہے اور نتائج خلافِ توقع معتوب پارٹی کے حق میں نکلتے ہیں، تب سیاسی اور معاشی استحکام کی راہ کیا متعین ہوگی؟
قارئین! ویسے یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے…… اور جواب کے لیے وقت کا انتظار کرنا ہوگا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔