میرا جیؔ بڑے گندے آدمی تھے۔ وہ اُن میں سے تھے جو کہتے ہیں کہ ’’یا نہلائے دائی یا نہلائیں چار بھائی۔‘‘ انہیں کبھی کسی نے نہاتے نہیں دیکھا، بلکہ منھ دھوتے بھی نہیں دیکھا۔ بال کٹوانے کے بڑے چور تھے۔ وحشیوں کی طرح ہمیشہ بڑے رہتے اور ان میں کبھی تیل نہ ڈالتے اور نہ انہیں بناتے۔ جب دلّی آئے تھے، تو مونچھیں بھی مونڈ ڈالی تھیں۔ ایک دفعہ جانے دل میں کیا سمائی کہ چار ابرو کا صفایا کر گلے میں سادھوؤں کی سی کنٹھی بھی ڈال لی تھی۔ ہمیشہ سنجیدہ صورت بنائے رہتے تھے۔ انہیں قہقہہ مارکر ہنستے مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ باتیں اکثر ہنسنے ہنسانے کی کرتے، مگر خود کبھی نہ ہنستے تھے۔ بہت خوش ہوئے، تو خندہ دنداں نما فرمایا۔ ان کے غچلے پن سے بڑی گھن آتی تھی، مگر یہ اُن گھناؤنی چیزوں میں سے تھے جنہیں اپنے سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی قلندرانہ اور حرکتیں مجذوبانہ۔
دو چار آدمیوں نے مل کر ایک کمرہ کہیں باڑے پر لے رکھا تھا، مگر رات کو اگر کہیں گھاس میں پڑ رہے، تو وہیں سوگئے اور اگر پٹری پر لیٹ گئے، تو وہیں صبح ہوگئی۔ ایک دو دن نہیں برسوں یہی حال رہا۔
(انتخاب از ’’شاہد احمد دہلوی کے شاہکار خاکے‘‘، مرتبہ حکیم اعجاز حسین چانڈیو، اشاعت 2017ء، بُک کارنر پرنٹرز، پبلشرز اینڈ بُک سیلرز، جہلم، پاکستان)