پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پاکستان تحریکِ انصاف میں اختلافات کی باتیں سنتے چلے آرہے تھے، جب کہ تحریکِ انصاف کے قائدین اسے پروپیگنڈا قرار دے رہے تھے۔ پارٹی میں اندرونی اختلافات کے علاوہ عوامی سطح پر بھی تحریکِ انصاف کی حمایت کم ہوتی جا رہی ہے۔ پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت کو اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کا احساس ہے اور ان کے لیے پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں صوبائی حکومتیں قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ پارٹی نے خیبر پختونخوا میں اپنے تین مخلص وزرا عاطف، شہرام ترکئی اور شکیل احمد ایڈوکیٹ کو بر طرف کر دیا۔ ان وزرا کی قربانی اس لیے بھی دینا پڑی کہ پنجاب میں کم از کم بیس اراکینِ صوبائی اسمبلی جو بغاوت کا اعلان کر بیٹھے تھے، کو پیغام دینا تھا۔ تاکہ وہ خاموش بیٹھ جائیں۔ وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے نوشہرہ میں قاضی حسین احمد میڈکل کمپلیکس میں ڈایلاسز سنٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں خیبر پختونخوا کے تینوں وزرا کو فارغ کرنے کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تینوں وزرا صوبائی حکومت کے خلاف سازش کرنے میں ملوث تھے، اور ہم نے سازش کرنے والے ہاتھ روک دیے۔ وزیر اعلیٰ کا میڈیا ٹرائل کرنے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ذاتی مسئلہ حل ہو جائے، تو پھر نہ وزیر اعلیٰ کرپٹ اور نہ حکومت،جب ان کے ذاتی کام نہیں ہوتے، تو وزیرِ اعلیٰ کرپٹ، حکومت کرپٹ، پنجاب کا مسئلہ بھی جلد حل ہو جائے گا۔ چوہدری فواد کا بھی حساب ہوگا اور جن لوگوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف بھرپور کارروائی ہوگی۔
وزیرِاعظم عمران خان نے پنجاب میں وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ سے خطاب میں واضح کیا کہ مجھے سازشوں کا علم ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سازش کون کر رہا ہے اور اس کے پیچھے کون ہے؟ کسی سے بلیک میل ہوتا ہوں، نہ ہوں گا۔ خیبر پختونخوا میں تین وزرا کو ہٹا دیا ہے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں، جان بوجھ کر روزانہ افراتفری کی باتیں کی جاتی ہیں، اور منظم مافیا حکومت کے خلاف منفی تاثر دے رہا ہے۔
وزیرِاعظم عمران خان کے اس اعلان سے کہ اگر کوئی دوسرا وزیر اعلیٰ آیا، تو وہ بیس دن بھی نہیں رہ سکے گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پارٹی میں ایک مضبوط گروپ بندی ہے، اور آپس میں چپقلش ہے۔ بلوچستان میں پارٹی ڈسپلن نہیں رہا، وہاں قبائلی اثر و رسوخ اور دولت ہی حکومت قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
دوسری طرف بلوچستان حکومت کو بھی اختلافات کا سامنا ہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی مداخلت سے وزیرِاعلیٰ بلوچستان کے سر سے خطرہ تو ٹل گیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ قاف، سندھ میں ایم کیو ایم،جے ڈی اے اور سندھ حکومت، مرکز سے ناراض ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ صوبے اس طرح چل سکیں گے؟ خیبر پختونخوا کے سابق وزرا عاطف خان اور شہرام ترکئی نے ایک نجی ٹی وی ٹاک شو میں الزام لگایا کہ انہوں نے سازش نہیں کی، بلکہ ان کے خلاف سازش کی گئی ہے۔ ہم نے کابینہ اجلاس میں صرف غلط کاموں کی نشان دہی کی۔ اگر یہ گناہ ہے، تو ہم نے کیا ہے۔ اس سارے معاملے میں وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کا ہاتھ ہے۔ مجھے وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا تھا، لیکن پرویز خٹک میرے خلاف تھے، اور بیس ایم پی ایز سے حکومت نہیں گرائی جا سکتی۔
عاطف اور شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان سے درخواست کی تھی کہ ہم آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈیوؤس سے واپسی پر ملاقات ہوگی۔ عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل احمد ایڈوکیٹ خیبر پختونخوا کے محنتی وزرا تھے۔ ان کی بہتر کارکردگی کے سبب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو دوسری بار دو تہائی اکثریت مل گئی۔ ورنہ خیبر پختونخوا میں دوسری بار حکومت ملنا اور وہ بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ ناممکن سی بات ہے۔ ان کے خلاف سازش اس لیے کی گئی ہے کہ جب عمران خان نے ان سے ڈیوؤس سے آنے کے بعد ملاقات کرنے کا کہا تھا، تو واپسی کے بعد جب عمران خان پشاور آئے، تو وزیرِاعلیٰ نے ان تینوں وزرا کو مدعو نہیں کیا تھا۔ ان کی غیر حاضری پر عمران خان کو پوچھنا چاہیے تھا۔ کیوں کہ وہ عام ورکرز نہیں تھے، بلکہ صوبے کے ذمہ دار وزرا تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
قارئین، جمہوریت میں غلامی اور غلامانہ طرزِ فکر نہیں بلکہ ہمیشہ اختلاف اور اختلافِ رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔ بظاہر ہمارے سیاست دان اختلافِ رائے کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کرتے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سازشیوں کو پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں، مگر جب وزیرِاعظم کو اس حوالے سے شکایت ملی، تو انہیں دونوں فریقین سے مذاکرات کرکے ان کا مؤقف سننے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ خبیر پختونخوا میں سینئر وزرا کو سنے بغیر وزارت سے فارغ کر دیا گیا، جب کہ دوسری طرف عمران خان نے پنجاب میں سرِعام اختلاف کا اظہار کرنے والے بیس ارکانِ اسمبلی کی ناراضی دور کرانے اور وزیرِاعلیٰ بزدار کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔
وزیرِاعظم کے اس اقدام سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے خیبر پختونخوا کے تینوں وزرا کے خلاف عمران خان کے کان بھر دیے ہیں، جو کہ سازش سے کم نہیں۔ سابق وزرا عاطف خان اور شہرام ترکئی سے وزیرِاعظم عمران خان نے دونوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ میرے قابل اعتماد ساتھی ہیں، لیکن پارٹی ڈسپلن پر سمجھوتا نہیں کروں گا۔ ملاقات میں عمران خان نے دونوں کو وزارت پر بحال کرنے کا گرین سنگل بھی دیا۔ ان حالات میں عام آدمی کیا سمجھے کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟ کیا ان کی زندگی میں حائل مشکلات اور مشکلات کو حل کرنے کے اقدامات حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہیں، یا صرف اقتدار کو طول دینے اور پسندیدہ شخصیات کو برقرار رکھنا ہی مقصود ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔