ساحرؔ لدھیانوی کے بعد اگر کسی دوسرے فلمی شاعر نے اپنے کلام کو باہر کے ادبی حلقے میں منوایا اور اُردو ادب کو اپنے منفرد لہجے اور اچھوتی فکر کا احساس دلایا ہے، تو وہ نام بلا تردّد ’’سمپورن سنگھ گلزار‘‘ؔ (پیدائش: 1936ء) کا ہے۔
گلزارؔ کے گیت اپنے نرالے خیالات اور مشکل علامات کے باوجود قبولیتِ خاص و عام کی سند حاصل کرتے رہے ہیں اور یہی گلزارؔ کا کمال ہے۔
گلزارؔ کو مشکل، تشبیہاتی اور علامتی انداز کی باتوں کو سیدھے، آسان اور عام بول چال کے لفظوں میں ادا کرنے کا فن آتا ہے۔
گلزارؔ کے حوالہ سے حسن عباس رضا لکھتے ہیں: ’’گلزارؔ کے ہر گیت کی شاعری اپنے اندر ایک انفرادیت لیے ہوتی ہے، جو نہ صرف سنتے ہی پہلی بار دل میں اتر جاتی ہے بلکہ جس کا تاثر دیر تک دل پر نقش رہتا ہے۔‘‘
عناصرِ فطرت کا خوب صورت بیان، تہذیبی رجحانات اور بالخصوص پنجابی ثقافت کی جھلک گلزارؔ کے گیتوں کے رچاؤ میں اضافے کا باعث ہے۔
گلزارؔ نے آزاد نظم کو بھی بھارتی فلمی و شاعری میں جگہ دلوانے کی کامیاب کوشش کی ہے:
چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں
جہاں تیرے پیروں کے
کنول گِرا کرتے تھے
ہنسے تو دو گالوں میں
بھنور پڑا کرتے تھے
تری کمر کے بل پہ
ندی مُڑا کرتی تھی
ہنسی تیری سُن سُن کے
فصل پکا کرتی تھی
(’’ارتباطِ حرف و معنی‘‘ از ’’عاصم ثقلینؔ‘‘، پبلشرز ’’فکشن ہاؤس، لاہور‘‘، سنہ اشاعت 2015ء، صفحہ نمبر 24، 25 سے انتخاب)