تحریر: ڈاکٹر روش ندیم
مترجم کا کردار تاریخ میں نہایت بلند رہا ہے۔ کیوں کہ وہ دیگر تہذیبوں اور ثقافتوں کے افکارو تصورات اور فن وجمال کا لین دین کرتا ہے۔
مترجم کا کردار اتنا اہم رہا ہے کہ وہ اپنے تراجم کے ذریعے سے تہذیب و ثقافت کا جمود اور ان کے افکار و تصورات کا سکوت توڑنے میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ وہ عہد بہ عہد روایات کی سنگلاخ دیواروں میں کھڑکیاں بنانے کا اہم کام سرانجام دیتا ہے۔ اس سارے عمل میں اپنی اس بغاوت کے باعث ایک طرف تووہ ہیرو بن کر ابھرا جب کہ دوسری طرف روایت پسندوں کے نزدیک ایک ولن بھی سمجھا گیا……لیکن آج اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں، تو ادب کی فنی جمالیات، دانش کی ہمہ جہت فکریات اور لسانی توسیع سمیت مجموعی ثقافتی ارتقا میں مترجم کے کرداروں کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہے۔
افسانے کے ضمن میں موپاساں کا نام بیسویں صدی کے بڑے فن کاروں میں ہو تا ہے، جس کے اثرات اُردو افسانے میں منٹو سے لے کر ہم عصر ادیبوں تک محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
معروف افسانہ نگار ڈاکٹر ریاض قدیر نے بطورِ مترجم جہاں خواجہ فرید کے دیوان کو اپنے انگریزی تراجم کے ذریعے دیگر ثقافتوں تک متعارف کرایا، وہاں موپاساں کو اُردو دنیا سے جوڑنے میں اپنا کردار بھی ادا کیا ہے۔
اولین طور پرگذشتہ صدی کی 30ء اور 40ء کی دہائیوں میں منٹو اور اس کے ہم عصروں نے موپاساں کو براہِ راست فرانسیسی کی بجائے اس کے انگریزی تراجم سے اُردو میں ترجمہ کیا تھا۔
ڈاکٹر ریاض قدیر نے بھی موپاساں کو انگریز مترجمین راجرکالٹ اور ڈیوڈ کاورڈ کے ذریعے سے ہی پڑھا تھا…… لیکن انگریز مترجمین کے مطالعے کے دوران میں موپاساں کے افسانوں میں پلاٹ اور اختتامیوں کے حوالے سے ان کا عدمِ اطمینان و تشکیک انھیں فرانسیسی زبان میں ان کے اصل متون تک لے گئی۔
ڈاکٹر ریاض قدری نے نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں اپنے چھوٹے بھائی پی ایچ ڈی سکالر ایاز قدیر کی معاونت سے انگریزی و فرانسیسی متون کے تقابل سے اپنے اُردو تراجم کو بہتر بنانے کی کاوشیں کیں…… بلکہ انھوں نے ڈرامائی، تھیٹری اور فلمی تشکیل اور ایوارڈ کے حامل افسانوں تک بطورِ خاص رسائی حاصل کی۔
ڈاکٹر ریاض قدیر کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ معروف اُردو نقاد و استاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے مشہور زِمانہ جریدے ’’نگار‘‘ کے مسلسل چار ’’موپاساں نمبر‘‘ ڈاکٹر ریاض قدیر کے تراجم پر شائع کیے…… جب کہ آخری شمارے میں ڈاکٹر ریاض قدیر کے طبع زاد افسانوں کو نمایاں جگہ دی۔
منٹو اور موپاساں کے تقابل پر مشتمل سندی تحقیق پر اعلا ڈگر ی لینے والے ہمارے اس مترجم نے موپاساں کے تین سو افسانوں کے تراجم میں سے 20 کہانیوں پر مشتمل ایک انتخاب ’’خواب گاہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا، جو جلد ہی مارکیٹ میں نایاب ہوگیا۔ ملتان کی یونیورسٹی کے نصاب کے لیے منظور شدہ اس کتاب کا اس کی شدید طلب کے باعث دوسری اشاعت کے مرحلے میں جانا نہ صرف مترجم کی کامیابی ہے…… بلکہ ہمارے سماج میں موپاساں کی قبولیت کا بھی ایک بڑا اشارہ بھی ہے۔
ڈاکٹر ریاض قدیر جیسا مترجم جو انگریزی کا استاد ہونے کے ساتھ ساتھ خود افسانہ نگار بھی ہے، تو ترجمے کا فن ان کے ہاں تخلیقی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
زبان پر دسترس، الفاظ کا مناسب چناو، ان کابرمحل استعمال، جملوں کی بناوٹ، ثقافتی بُعدپر گرفت، مقامی جمالیات کا شعور، تحریر کی برجستگی اور بہاو جیسے چیلنج ترجمے کے راستے کے بڑے پہاڑ ہیں۔ ان پہاڑوں کو عبور کرکے مقامی قاری کا اعتماد حاصل کرناگویا کسی اجنبی سرزمین پر بدیسی پودے کی پیوند کاری کرکے اس کے پھل کھانے کے برابر ہے۔ ڈاکٹر ریاض قدیر نے یقینایہ کامیابی حاصل کی ہے۔
خواب گاہ کے دوسرے ایڈیشن پر وہ ایک اورکامیابی کے مستحق ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔