قارئین، عرصہ پہلے عمر خیام نے ایک رباعی کیا لکھی کہ پوری دنیا اس کی دیوانی بن گئی۔
سرِ دست رباعی ملاحظہ ہو:
آمد سحرے ندا از مے خانۂ ما
کائے رندِ خراباتی و دیوانۂ ما
برخیز کہ پر کنیم پیمانہ زمے
زاں پیش کہ پر کنند پیمانۂ ما
اس کا پشتو ترجمہ کاکاجی صنوبر حسین مومند نے کچھ یوں کیا:
میخانی نہ نعرہ وشوہ مستانہ
اے زما پہ مینہ مستہ دیوانہ
پاسہ ڈکہ کڑہ پیالہ، لہ دی نہ مخکی
چی مو ڈکہ کڑی دَ عمر پیمانہ (1)
احمد علی شاہ مشال کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ahmad/
آغا شاعر قزلباش اُردو میں اس کا ترجمہ کچھ اس انداز سے کرتے ہیں:
آئی یہ صدا صبح کو مے خانے سے
اے رندِ شراب خوار، دیوانے سے
اٹھ جلد بھریں شراب سے ساغر ہم
کم بخت چھلک نہ جائے پیمانے سے
ملک الکلام مذکورہ رباعی کو کچھ اس انداز سے بیان کرتے ہیں:
اک صبح ندا آئی یہ مے خانے سے
اے رندِ خرابات، مرے دیوانے
قبل اس کے مئے ناب سے بھر لے ساغر
پیمانہ تن سے بادۂ جاں چھلکے
دیگر متعلقہ مضامین:
غلام ہمدانی مصحفیؔ
جون ایلیا، شخصیت و فن  
مولانائے روم کی ایک مشہور غزل مع اُردو ترجمہ 
زمانہ جاہلیت کے ایک شاعر کا اپنی محبوبہ کے نام قصیدہ  
ایک عرب شاعر کی لازوال نظم کا اُردو ترجمہ 
اب تھوڑا عزیز احمد جلیلی کا انداز بھی ملاحظہ ہو:
اک صبح ندا آئی یہ مے خانے سے
اے رندِ قدح نوش، مرے دیوانے
آخوب مے ِ ناب کے ساغر چھلکائیں
بھر جائے قدح زیست کا اس سے پہلے
اب ذرا مراد آبادی کا رنگ بھی ملاحظہ ہو:
ہوئی سحر تو پکارا یہ پیرِ مے خانہ
ارے اُو مست، کہاں ہے سدا کا دیوانہ
بلانا اُس کو کہ جلدی سے اُس کا جام بھریں
مبادا موت نہ بھر ڈالے اُس کا پیمانہ
اب ذرا میرا جی کا نرالا انداز بھی ملاحظہ ہو:
آئی ندا یہ صبح سویرے کانوں میں مے خانے سے
کوئی یہ کَہ دے جاکے ذرا یہ بات ترے دیوانے سے
اُٹھ جاگ بس آنکھیں کھول چل آجا بھر لیں ہم پیمانے کو
کوئی دم میں چھلک اٹھے گی مدھرا جیون کے پیمانے سے
اس حوالے سے عبدالحمید عدمؔ کا انداز بھی دل کو چھولینے والا ہے، ملاحظہ ہو:
کل صبح خرابات سے آئی یہ ندا
اُٹھ جاگ، صراحی مئے خنداں کی اُٹھا
کب ٹوٹ کے ہوجاتا ہے ریزہ ریزہ
پیمانۂ ہستی کا نہیں کوئی پتا
اب انگریز شاعر فٹزجیرلڈ کا انداز ملاحظہ ہو:
Dreaming when Dawn’s
Left Hand was in the Sky
I heard a Voice within the Tavern cry,
Awake, my Little ones, and fill the Cup
Befor life’s liquor in it’s cup be dry (2)
قارئینِ کرام! اس سے اندازہ لگائیں کہ عمر خیام کی اس رباعی نے کتنے دلوں کو چھوا اور کتنے ذہنوں پر یہ نقش ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی۔
حوالہ جات:
(1):۔کتاب ’’رباعیاتِ خیام‘‘، پشتو ترجمہ ’’کاکا جی صنوبر حسین مومند‘‘، تدوین او سریزہ ’’ڈاکٹر حنیف خلیل‘‘ صفحہ نمبر 18۔
(2):۔ قندیل آن لائن ڈاٹ کام، عمر خیام کی ادب کائنات، ظفر سید، 7 دسمبر 2019ء۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔