میں نے جب ہوش سنبھالا، تو گھر میں باجی کو ہر وقت کچھ پڑھتے ہوئے ہی پایا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ’’خواتین ڈائجسٹ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’پاکیزہ ڈائجسٹ‘‘ اور ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کی بھی رسیا تھیں۔ اُن کے بعد بڑے بھائی کو بھی اِسی رنگ میں رنگا ہوا پایا۔ وہ ’’جاسوسی ڈائجسٹ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’سسپنس ڈائجسٹ‘‘ اور ’’سرگزشت‘‘ کے دیوانے تھے۔’’جاسوسی‘‘ میں وہ سرورق کی تین کہانیاں پڑھا کرتے تھے جبکہ ’’سسپنس‘‘ میں آخری کہانی کے ساتھ ساتھ سلسلے وار کہانی ’’موت کے سوداگر‘‘ اور ’’دیوتا‘‘ کو بھی چاٹا کرتے تھے۔ اُن کی دیکھا دیکھی مجھے بھی ان کہانیوں کا چسکا پڑگیا۔ جو غیر محسوس انداز میں میری عادت بنتا گیا جس نے میری اردو دانی کو پختہ کیا، تب مجھے علم ہوا کہ طاہر جاوید مغل، علیم الحق حقی، ڈاکٹر ساجد امجد اور محی الدین نواب ایسے قلمکار ہیں جن پر خدا کا خاص کرم ہے۔ قلم قبیلے کے اس گلدستے میں محی الدین نواب کو گلِ سرسبد کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ انسانی نفسیات کے انتہائی ماہر انسان تھے۔ میں ہر ماہ اُن کی کہانی کا بے چینی سے انتظار کرتا تھا۔ یوں تو اُن کی ہر کہانی ہی بے مثال اور باکمال ہوتی تھی لیکن دنیا کی طویل ترین کہانی ’’دیوتا‘‘ اُن کی خاص پہچان تھی۔ یہ شہرہ آفاق کہانی تینتیس سال تک سسپنس ڈائجسٹ میں مسلسل شائع ہوتی رہی اور بالآخر جنوری 2010ء کو یہ اپنے منطقی انجام تک جا پہنچی۔ یہ اک ایسی دلچسپ اور سحر انگیز کہانی تھی کہ اگر کوئی اس کی ایک قسط بھی پڑھ لیتا، تو وہ اس کے جادوئی اثر سے نہ بچ پاتا۔ اس میں ٹیلی پیتھی اور ہپناٹزم کے علم سے دوسروں کے دماغ میں گھس کر اپنی مرضی کے کام کروانے کے ایسے ایسے محیرالعقول واقعات تھے کہ بندہ اگلی قسط پڑھے بنا رہ نہ سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ بیس برس سے یہ کہانی بلاناغہ ہمارے گھر آرہی تھی۔

دنیا کی طویل ترین کہانی ’’دیوتا‘‘ محی الدین نواب کی خاص پہچان تھی۔ (Photo: The Library PK)

نواب صاحب کے لاکھوں فین میں ایک محمد عادل تنہاؔ جیسا سرپھرا بھی تھا جو اُن سے ملنے کراچی جا پہنچا۔ اُس نے اُنہیں کیسے تلاش کیا اور سوات آنے کے لیے کیسے راغب کیا؟ یہ اک الگ کہانی ہے (اگر وہ خود لکھ دیں، تو کمال ہو جائے)۔ یہ 2003ء کی ایک سہانی شام تھی۔ میرے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور کریڈل سے اُٹھا کر ہیلو کہا، تو دوسری طرف سے شستہ اردو میں اک کھنکتی آواز سنائی دی، کہنے لگے: ’’میں محی الدین نواب بات کر رہا ہوں، میں سوات میں محمد عادل تنہاؔ کے گھر سے بول رہا ہوں، مجھے آپ سے ملنا ہے۔‘‘ اگلے روز جب وہ عادل تنہاؔ کے ہمراہ ’’عالم گنج‘‘ میرے غریب خانے پہ تشریف لائے، تو اُن کے ساتھ ایک نازک اندام سی خوبصورت لڑکی بھی تھی جس کا نام ’’کشور سلطانہ‘‘ بتایا گیا جو مختصر کہانیاں لکھا کرتی تھی۔ اُن دنوں اُس کی ’’کن رس‘‘ نامی کہانی کے بڑے چرچے تھے۔ نواب صاحب کی عمر اُن دنوں 73 برس تھی۔ اُن کا قد ناٹا، آنکھیں بڑی، رنگ مٹیالہ، لہجہ شیریں، دماغ تیز اور زبان لکھنویت آمیز تھی۔ کسمپرسی کی حالت میں بِہار سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور کراچی میں مقیم ہوگئے۔ تعلیم اُن کی میٹرک تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’میں نے مصوری اور شاعری بھی کی، فلم انڈسٹری کے لیے سکرپٹ بھی لکھے، کچھ خواتین کے فرضی ناموں سے اور کچھ اپنے نام سے قریباً ستّر، اسّی ناول بھی لکھے۔ بالآخر سسپنس ڈائجسٹ کے معراج رسول نے بھائیوں جیسی محبت دے کر مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ تب سے اب تک ’’دیوتا‘‘ لکھ رہا ہوں۔ دیگر کہانیاں اس پہ مستزاد ہیں۔ ایک کہانی کے مجھے پچیس ہزار ملتے ہیں جبکہ میں مہینے میں چار کہانیاں لکھ لیتا ہوں۔ ’’دیوتا‘‘ کے حوالے سے کہنے لگے کہ یہ دنیا کی طویل ترین کہانی ہے۔ اس سے پہلے اک جاپانی کہانی کے پاس طوالت کا ریکارڈ تھا۔ جس میں اتنے الفاظ تھے جبکہ اب دیوتا کے الفاظ اس سے تجاوز کر گئے ہیں۔ گینزز بک آف ورلڈریکارڈ والے اسے اس لیے شامل نہیں کر رہے کہ اس میں امریکہ خلاف ایجنڈا موجود ہے۔‘‘
’’دیوتا‘‘ کے حوالے سے میں نے اُن سے پوچھا کہ ’’اس کہانی میں تو ہزاروں کردار ہیں، یہ آپ کو کیسے یاد رہتے ہیں؟‘‘ تو کہنے لگے: ’’دیوتا میری رگوں میں دوڑتا ہے۔ اس لیے اس کا ہر کردار مجھے یاد ہے۔‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ ’’یہ فرہاد علی تیمور کون ہیں جو دیوتا کے راوی بنے بیٹھے ہیں؟‘‘ تو کہنے لگے: ’’یہ ایک فرضی نام ہے۔ اگر میں اپنے نام سے لکھوں، تو انکم ٹیکس کے ساتھ عدالتوں کا ڈر بھی رہے گا۔‘‘ آخر میں اُنہوں نے اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ ’’میں کہانی لکھتا نہیں بلکہ ٹیپ ریکارڈر میں ٹیپ کرتا ہوں۔ آپ کی اردو اچھی ہے، اگر آپ اسے کاغذ پہ لکھ کر سسپنس ڈائجسٹ کے دفتر بھیج دیا کریں، تو میں آپ کو اس کا معقول معاوضہ دیا کروں گا۔ میں نے حامی بھرلی لیکن بعد میں انہیں مینگورہ میں کوئی اور کمپوزر مل گیا جو اُن کا یہ کام کر دیا کرتا تھا۔‘‘
ایک دفعہ ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں وہ مہمانِ خصوصی تھے۔ راہی صاحب، ضیاء الدین یوسفزئی (ملالہ کے والد) برہان الدین حسرتؔ اور راقم الحروف کے مقالے سننے کے بعد اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہم وطن کے لیے خون تو دیتے ہیں، لیکن دودھ نہیں دیتے۔‘‘ تقریب کے اختتام پر ضیاء الدین یوسفزئی نے کہا کہ ’’دودھ دینے سے کیا مراد ہے؟‘‘ تو کہنے لگے: ’’تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا۔‘‘ تب ضیاء الدین نے کہا کہ ’’آپ نے تو بڑی پتے کی بات کی۔‘‘
اُنہیں سوات بہت پسند آیا۔ وہ تین سال تک گرمیاں گزارنے مسلسل سوات آئے۔ میں جب بھی اُن سے ملنے جاتا، وہ چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر ہاتھ میں لیے بیٹھے، لیٹے یا صحن میں چہل قدمی کرتے کہانی بول رہے ہوتے۔ مجھے دیکھتے ہی کہانی روک کر تپاک سے ملتے اور محبتیں نچھاور کرنے لگتے۔ اُنہیں بات کرنے کے بڑے پیرائے آتے تھے۔ ایک دفعہ کہنے لگے: ’’وہ جو کہتے ہیں کہ فلاں نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں، میں نے تین شادیاں کر رکھی ہیں اور تیرہ بچے ہیں۔ گویا میں تین میں بھی ہوں اور تیرہ میں بھی۔‘‘ (بعد میں چوتھی شادی بھی کرلی) عادل تنہاؔ کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ ’’اُس کے ذہن پہ عورت سوار ہے۔ اس لیے وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘

محی الدین نواب کو سوات پسند آیا تھا، وہ تین سال تک گرمیاں گزارنے مسلسل سوات آئے تھے۔ (Photo: http://adab4u.blogspot.com)

نواب صاحب کو نفس کی شدید بیماری لاحق تھی۔ اچانک کھانسی کا ایسا دورہ پڑتا کہ ادھ موا ہو جاتے۔ کشور سلطانہ جھٹ سے منھ میں سپرے کرتی تب اُن کی جان میں جان آتی۔ سوات (میاندم) میں وہ لمبا عرصہ گزارنا چاہتے تھے لیکن سوات کے حالات کی وجہ سے اُن کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور اُن کی یہ خواہش بھی اُن کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن ہوگئی۔
نواب صاحب آج ہم میں نہیں ہیں لیکن وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اُن کے ہاتھ کی دستخط شدہ تصاویر، دستی تحریریں، کچھ ناقابلِ فراموش باتیں اور یادیں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی۔ وہ چھیاسی برس تک زندہ رہے۔ عتیق الرحمان کی طرح مجھے بھی فخر ہے کہ ’’میں نے اُن کی تحریر کی انگلی پکڑ کر ادب کی وادی میں چلنا سیکھا۔‘‘

……………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔