جنرل قمرجاوید باجوہ ارکان سینیٹ سے نشست کے لیے ایوان بالا تشریف لائے۔ سوال و جواب کے طویل سیشن میں سینیٹروں نے ہراہم معاملے میں سپاہِ سالار کی رائے اور عسکری اداروں کی حکمت عملی کا جواز اور پس منظر جاننا چاہا۔ اگرچہ سیشن اِن کیمرہ تھا لیکن اس کے باوجود ذرائع ابلاغ نے اجلاس کی جو اندورنی کہانی بیان کی، وہ کافی حوصلہ افزا ہے۔ جنرل باجوہ نے کھلے ڈھلے انداز میں سیاستدانوں سے بات چیت کی۔ ایوان کاماحول نہ صرف خوشگوار بلکہ دوستانہ رہا۔ بعدازاں لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس اجلاس کو وقت کی اہم ضرورت قراردیا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ وہ فوجی لیڈرشپ کو سینٹ میں لے آئے۔ ماضی میں بھی یہ پی پی پی ہی تھی جو جنرل پرویز اشفاق کیانی اور شجاع پاشا کو پارلیمنٹ میں لائی تھی، جہاں دونوں جنرلوں نے تفصیل کے ساتھ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور بعد ازاں امریکی حملے میں ہلاکت پر ارکان پارلیمنٹ کے تیکھے سوالات کے جوابات دیئے تھے۔ اس کے برعکس جناب نواز شریف جب تک وزیراعظم رہے، پارلیمنٹ کو اہمیت دی نہ نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس منعقد کیے۔ وہ قومی سلامتی اور خارجہ امور پر بحث اپنی کیچن کیبنٹ میں ہی کرتے رہے۔
گذشتہ چند ہفتوں سے ملک میں کسی غیر آئینی اقدام یا قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی جمہوری نظام حکومت کو لپیٹے جانے کے خدشے کا اظہار کیا۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کہا کہ خطرہ ہے کہ کوئی طاقت مجھے اٹھا نہ لے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق بھی اسمبلیوں کی تحلیل کے امکانات کا برملا اظہار کرتے رہے۔ بہت سارے مبصرین نگران یا عبوری حکومت کے قیام کی بھی پیش گوئی کرتے رہے۔ نون لیگ کی سینئر قیادت بھی سول ملٹری تعلقات میں پائے جانے والے تناؤپر نہ صرف کھلے عام اظہار خیال کرتی رہی بلکہ عسکری اداروں کو اپنے مخالف اور تحریک انصاف کے حامی کے طور پر شناخت کرتی ہے۔ نون لیگی سیاستدان اور دانشور تحریک انصاف کو اسٹبلشمنٹ کی پارٹی قراردیتے ہیں۔ شریف خاندان خود کو جمہوریت کے حقیقی اور واحدعلمبردار کے طور پر متعارف کر رہا ہے۔

نون لیگی سیاستدان اور دانشور تحریک انصاف کو اسٹبلشمنٹ کی پارٹی قراردیتے ہیں۔ (Photo: Samaa TV)

چند ہفتے قبل اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے اور بعد ازاں طاہر القادری صاحب کے امکانی دھرنے کے حوالے سے بھی خفیہ اداروں پر الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس طرح کی افواہوں پر نہ صرف یقین کرتی ہے بلکہ شیخ رشید احمد کی طرح کے خود ساختہ ترجمان ان افواہوں کو اپنے بیانات کے ذریعے تقویت پہنچاتے ہیں۔ سرِشام ٹی وی ٹاک شو شروع ہوجاتے ہیں جن میں درجنوں ریٹائرڈ فوجی افسر نمودار ہوتے ہیں۔ یہ حضرات تاثر دیتے ہیں کہ جیسے کہ عسکری اداروں نے انہیں ترجمانی کے لیے بھیجا ہو۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے ہر موضوع پر بے تکان گفتگو کرتے ہیں۔ کرکٹ سے لے کر سیاست تک کوئی ایشو ایسا نہیں جس پر وہ ماہرانہ رائے نہ دیتے ہوں۔

سرِشام ٹی وی ٹاک شو شروع ہوجاتے ہیں جن میں درجنوں ریٹائرڈ فوجی افسر نمودار ہوتے ہیں۔ یہ حضرات تاثر دیتے ہیں کہ جیسے کہ عسکری اداروں نے انہیں ترجمانی کے لیے بھیجا ہو۔

بھارت کے کچھ چینلز بھی پاکستان کے ان دفاعی ماہرین کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے برعکس بھارتی ٹی وی چینلز اپنے شرکائے پروگرام کو چند سو ڈالر معاوضہ بھی دیتے ہیں لیکن اکثر پروگراموں کے میزبان نہ صرف بدتمیز اور غیر مہذب ہوتے ہیں بلکہ پاکستانی شرکا کے ساتھ بے رحمانہ سلوک بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بہت سارے ماہرین ان کے پروگراموں میں شوق سے شریک ہوتے ہیں اور پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ چینلز بھی پاکستان کی داخلی سیاست کے تضادات کو خوب ہوا دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا ان کلپس کو اٹھا کر ملک کے طول وعرض میں پھیلادیتاہے۔
اس پس منظر میں غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ضروری تھا کہ فوجی اور سویلین لیڈرشپ کے مابین سنجیدہ مکالمہ ہو اور عسکری قیادت اہم پالیسی امور پر اپنا نقطۂ نظر بیان کرے۔ اگرچہ شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد نیشنل سیکورٹی کونسل کے مسلسل اجلاس کیے۔ اہم قومی امور بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سیاسی اور عسکری لیڈرشپ ایک صفحے پر لائے۔ اس کے باوجود سویلین قیادت اور راولپنڈی کے درمیان کافی فاصلہ پایا جاتا تھا۔ دیر آید درست آید کے مصداق اس خلیج کو پاٹنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

پاکستان کے جمہوری نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ رائے عامہ اس پر اعتماد نہیں کرتی۔

نیشنل سیکورٹی کونسل اور پارلیمنٹ کی درجنوں ایسی کمیٹیاں موجود ہیں جو حکومت اور فوج کے مابین مسلسل مکالمے اور مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کا درست پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سویلین حکومت اپنی بالادستی تسلیم کرانے کے لیے پہل قدمی کرنے سے کتراتی ہے۔ خاص طور پر جوہری پروگرام، پاک امریکہ تعلقات، بھارت اور کشمیر کے امور اور افغانستان ایسے امور ہیں، سویلین حکومت جن کے قریب بھی نہی پھٹکتی۔ گذشتہ سترہ سال سے وہ داخلی سیکورٹی کے معاملات سے بھی دست کش ہوچکی ہے۔ تعلیم، صحت اور پولیس جیسے اہم محکمہ وفاق پہلے ہی صوبائی حکومتوں کے حوالے کرچکا ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے پاس کرنے کے بہت تھوڑے کام رہ گئے ہیں۔ مختصر سی کابینہ کے ساتھ وزیراعظم زبردست کارکردگی دیکھا سکتے ہیں۔ کارکردگی کی کوکھ سے سویلین بالادستی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ عسکری ادارے ملک کو موجودہ صورت حال میں چھوڑ کر پس منظر میں جاسکتے ہیں اور نہ ہی پلیٹ میں رکھ کر سویلین کو اختیارات سونپ سکیں گے۔ ترکی میں بھی فوج اور عدلیہ کا قومی امور میں اس وقت کردار کم ہوا جب طیب رجب اردوان کی حکومت نے ملک کو معاشی خودکفالت کی راہ پر ڈالا۔ شہریوں کا حکومت پر اعتماد بحال کیا۔ منتخب حکومت کی شکل میں ایک بہتر متبادل فراہم کیا توترک عوام حکومت کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔
پاکستان کے جمہوری نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ رائے عامہ اس پر اعتماد نہیں کرتی۔ اعتماد کرے بھی تو کیسے؟ جو بھی پارٹی دیکھیں، صف اوّل میں خاندان، رشتے داروں اور دوستوں کا ایک جم غفیر ڈیرے جمائے نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بدترین ڈکٹیٹر شپ ہے۔ پارٹی قیادت پسند اور ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تجارتی کمپنی کی طرح کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں اختیارات اور وسائل فراہم کرنے سے خوف کھاتی ہیں ۔انہیں پنپنے ہی نہیں دیا جاتا۔ مبادہ سیاست عامیوں کو منتقل نہ ہوجائے۔ اکثر پارٹیوں کی بالائی قیادت بدعنوانیوں سے لتھڑی ہوئی ہے۔ وزرا تک خلیجی ریاستوں کے اقامے گلے میں لٹکائے، ایٹمی طاقت پاکستان کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان حالات میں عام لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ جمہوریت کا راگ الاپتے پھریں۔
سیاسی جماعتوں کو اپنا بیانیہ، تاثر اور کارکردگی بیک وقت بہتر بنانا ہوگی۔ شہریوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے انہیں ایسے سلوگن دینے ہوں گے جو انہیں قومی معاملات میں سرگرم کردار ادا کرنے کی طرف مائل کرسکیں۔

…………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔