گذشتہ کچھ دنوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ پر چند مخصوص دوستوں کی جانب سے مینگورہ کی ایک نام ور شخصیت کے بارے میں کچھ ہونی اَن ہونی باتیں سامنے آتی رہیں۔ مَیں نے ایک آدھ کا جواب دیا بھی…… مگر آج جی چاہتا ہے کہ کچھ متنازع باتوں کو نظر انداز کرکے (مرحوم) ملوک حاجی صاحب کے بارے میں کچھ اپنی یادداشت سے آپ کے ساتھ شیئر کروں۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
مرحوم کا نام تو اَب زبان زدِ عام ہے۔ کیوں کہ مینگورہ شہر کا ایک حصہ اُن کے نام سے موسوم ہوکر قانونی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ میرا اشارہ ’’ملوک آباد‘‘ کی طرف ہے۔
میرے مشاہدے میں ملوک حاجی صاحب کی جو نمایاں خوبی آئی ہے، وہ اُن کی وفاداری ہے۔ جیسا کہ ایک فارسی مثل ہے: ’’کہ وفاداری بہ شرطِ استواری اصل ایمان است۔‘‘
سال تو مجھے یاد نہیں رہتے، مگر بات جنرل الیکشن ہی کی تھی۔ ملوک حاجی صاحب (مرحوم)، میاں گل اورنگزیب صاحب کے مضبوط حامی اور پارٹی ورکر تھے۔ ولی عہد صاحب اس الیکشن میں قومی اسمبلی کے لیے امیدوار تھے۔ میری ڈیوٹی اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسر کی حیثیت سے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 4 وتکے مینگورہ میں لگی تھی۔ ہمارے مرحوم ایس ڈی اُو فضل احد خان پریزائڈنگ آفیسر تھے۔ ووٹنگ سے ایک دن قبل ملوک حاجی صاحب اور چند شرپسند عناصر کے درمیاں ہاتھا پائی ہوئی تھی۔ اُس حادثے میں حاجی صاحب کے بھائی زخمی بھی ہوئے تھے۔ شاید اُن کو گولی لگی تھی پیر میں۔
دیگر متلعقہ مضامین: 
ملوک حاجی صاحب کی یاد میں  
صنوبر استاد صاحب  
مختیار احمد (قمر آپٹکو) کی یاد میں  
باچا خان بابا کے ساتھ میرے سفر کی یادداشت 
بزوگر حاجی صاحب 
پولنگ کے دوران میں حاجی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ اپنے بھائی کو چارپائی میں ڈال کر ووٹ ڈالنے کے لیے لانا چاہتے ہیں۔ مَیں نے کہا، بہ سرو چشم…… یہ تو ان کا حق ہے۔
بہ ہر کیف وہ اپنے بھائی کو پولنگ سٹیشن لائے، تو مَیں نے پولنگ ایجنٹ حضرات کی اجازت سے سکول کے لان میں جاکر ضروری کارروائی پوری کی اور اُن کا ووٹ کاسٹ ہوا۔
اب یہ لوگ پھر بھی لان میں کھڑے رہے۔ مَیں نے اُن سے عرض کیا کہ اب آپ اُن (مجروح بھائی) کو اُٹھا کر لے جائیں۔ ملوک حاجی صاحب جواباً کہنے لگے، ’’بس تھوڑی دیر اور رہنے دیں۔‘‘
ایسے میں اچانک میاں گل اورنگ زیب تشریف لائے۔ حاجی صاحب نے اُن سے ہاتھ ملایا اور اپنے زخمی بھائی سے بھی ملوایا۔ اُنھوں نے شکریہ ادا کیا اور پھر اُن کو کہا کہ پولنگ سٹیشن سے اپنے بھائی کو لے جائیں۔
دوستو! میرا مطلب یہ تھا کہ ملوک حاجی صاحب انتہائی مخلص انسان تھے۔ اللہ ان کی مغفرت نصیب کرے، آمین!
مذکورہ پولنگ کا ایک اور واقعہ بھی عرض کرتا چلوں۔ ایک لڑکا ووٹ ڈالنے آیا۔ مَیں نے اُس کا نمبر فہرست میں دیکھا۔ اُس کا سب کچھ ٹھیک تھا۔ بس اُس کے شناختی کارڈ میں صرف ایک خامی تھی۔ اُس پر مجاز اتھارٹی کے دستخط نہیں تھے۔ باقی سارے اندراجات دُرست تھے…… مگر مَیں نے اُسے بیلٹ پیپر جاری نہیں کیا۔ میرے اس عمل پر لڑکا بہت جذباتی ہوگیا۔ عین موقع پر میاں گل اورنگزیب میرے کمرے میں تشریف لائے۔ وہ لڑکا اُن سے شکایت کرنے لگا کہ ’’مَیں آپ کا ووٹر ہوں اور یہ شخص مجھے ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دے رہا۔‘‘
میاں گل اورنگزیب مجھ سے وجہ پوچھنے لگے، تو مَیں نے اُنھیں ساری بات تفصیل سے بتائی۔
میاں گل اورنگزیب نے اپنی جیب سے اپنا شناختی کارڈ نکالا اور پوری انہماک سے دونوں کا موازنہ کیا۔ اُس کے بعد کہا: ’’بیٹے! اس میں، مَیں کچھ نہیں کرسکتا۔ قانون سب کے لیے برابرہے۔‘‘
ہائے کیا لوگ تھے، جو دامِ اجل میں آئے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔