’’معین الطریقت‘‘ کا مختصر سا جائزہ

تبصرہ: سیمیں کرن’’معین الطریقت‘‘ جب میرے ہاتھ آئی جو کہ شیخ ابنِ عربی کے رسالہ ’’الامر المحکم المربوط فی ما یلزم اہل طریق اللہ من الشروط‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے اور اسے اُردو قالب میں پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی نے ڈھالا ہے۔ وہ خود ایک معروف علمی روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ بہت […]
ریاست سوات دور کا ایک نوعمر قاتل

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)وہ ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کی ماں کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا اور اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی۔ کہا جاتا تھا کہ اس کی سوتیلی ماں اس کے […]
ریاست سوات: تعلیمی سہولیات اور چند ذہین طلبہ

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)میری زندگی میں پہلی بڑی تبدیلی وہ تھی، جب مَیں 1950ء میں، سکول میں داخل ہوا۔ مجھے صبح بہت جلد اُٹھنا پڑتا تھا اور سکول کے لیے تیاری کرنی پڑتی تھی۔ میرا سکول شگئی میں تھا، […]
خلیل جبران کی نظم "Fear” کا اُردو ترجمہ

کہتے ہیں، سمندر کی وسعتوں میں اُترنے سے پہلےدریا کے دِل میں اِک ہلچل سی مچتی ہےایک خوف انگڑائی لیتا ہےوہ پلٹ کر اُن گزرگاہوں کو دیکھتا ہےجو اُسے پہاڑوں کے دامنجنگلوں کی تاریکیوںاور بستیوں کے بیچوں بیچخمیدہ راہوں سے گزار کریہاں تک لے آئی ہیںوہ اُن چوٹیوں کو تکتا ہےجہاں سے ہو کر وہ […]
’’ہمدردی‘‘ (پشتو سے ترجمہ شدہ انشائیہ)

ایک جگنو تھا، بہت ہوش یار اور ذہین۔ اُس نے علامہ اقبالؔ کی مشہور نظم ’’ہمدردی‘‘ سنی تھی۔ وہ اسے ہر وقت گنگناتا۔ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہابلبل تھا کوئی اُداس بیٹھاآج کے مسلمانوں کی طرح جگنو بھی اپنے اسلاف پر بہت نازاں تھا۔ اُس کے دل میں فخر نہیں، بل کہ غرور تھا کہ […]
آرتھر شوپن ہاور کا قول اور اس کی وضاحت

تحریر: امیر بادشاہدست قول ملاحظہ ہو: ’’زیادہ تر یہ نقصان ہے، جو ہمیں چیزوں کی قدر کے بارے میں سکھاتا ہے!‘‘یہ قول ہمیں آرتھر شوپن ہاور کے ایک گہرے فلسفیانہ مشاہدے سے روشناس کراتا ہے۔شوپن ہاور ایک 19ویں صدی کے جرمن فلسفی تھے، جنھوں نے زندگی کو ایک بے معنی اور تکلیف دِہ جد و […]
’’مَیں نے سیکھا ہے کہ……!‘‘

تحریر: رومانیہ نور مَیں نے سیکھا ہے کہ دنیا کا بہترین تدریسی مقام ایک بزرگ کے قدموں میں ہے۔مَیں نے سیکھا ہے کہ جب آپ محبت میں مبتلا ہوتے ہیں، تو یہ ظاہر ہوتا ہے۔مَیں نے سیکھا ہے کہ بچے کو اپنی بانہوں میں سلانا دنیا کے سب سے پُرسکون احساسات میں سے ایک ہے۔مَیں […]
اندھوں کا دیس (تبصرہ)

تحریر: ایم عرفان انگریزی ناول نگار "HG Wells” نے زیرِ تبصرہ ناول کو پہلی بار 1936ء میں شائع کیا تھا اور آج بھی یہ باربار چھپ رہا ہے۔اس کہانی میں مصنف ہمیں ایک عجیب و غریب بیماری کے بارے میں بتاتا ہے۔ برف پوش پہاڑوں کے بیچوں بیچ دنیا سے الگ تھلگ ایک کٹے ہوئے […]
شاعر کی موت (افسانہ)

رات اپنے تاریک بازو کائنات پر پھیلا چکی تھی۔ فضا پر سناٹا طاری تھا۔ برف گر رہی تھی۔ لوگ اپنے مکانوں محلوں اور جھونپڑیوں میں گھسے ہوئے تھے۔ راستے ویران اور سڑکیں سنسان تھیں۔ شہر سے باہر ایک نواحی بستی میں دوسرے مکانات سے الگ ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں ایک نوجوان اپنی زندگی کے […]
جان ملٹن کی ’’گم شدہ جنت‘‘

پیدایش: 1608ء انتقال: 1674ء جان ملٹن (John Milton) انگریزی ادب کا ایک بڑا شاعر ہے، جسے شیکسپیئر کے بعد دوسرا درجہ دیا جاتا ہے۔ اُس نے اعلا تعلیم کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر اپنے باپ کے دیہاتی مکان میں تنہائی اختیار کرکے چھے سال تک اُن تمام علوم کا مطالعہ کیا، جو اُس […]
’’ودرنگ ہائٹس‘‘ عشقِ بلا خیز کی داستاں

تبصرہ: انور مختار شہزاد حسین بھٹی صاحب ’’ہم سب بلاگ‘‘ پر اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایملی کا ناول ’’ودرنگ ہائیٹس‘‘ پہلی بار 1847ء میں ایلس بیل کے قلمی نام سے شائع ہوا، لیکن 1850ء میں شائع ہونے والا ایڈیشن ان کے حقیقی نام سے چھاپا گیا۔ یہ ناول گوتھک فکشن ہے […]
ناول ’’اندھیرے میں‘‘ (تبصرہ)

تحریر: عمر خان رابندر ناتھ ٹیگور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اُن کا شہرہ آفاق ناول ’’ٹھاکرانی کی ہاٹ‘‘ ٹیگور کی ابتدائی تصنیفات میں سے ہے، جس کا اُردو ترجمہ پرتھوی راج نشتر نے ’’اندھیرے میں‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا […]
چیونٹی اور پیوپا (افسانچہ)

مترجم: قیصر نذیر خاورؔ ایک چمکیلی دوپہر کو ایک چیونٹی خوراک کی تلاش میں تیزی سے بھاگی جا رہی تھی کہ اُس کا ٹاکرا ایک پیوپا سے ہوا، جو اپنی جون بدلنے کی حالات میں تھا۔ پیوپا نے اپنی دم ہلائی، تو چیونٹی اُس کی طرف متوجہ ہوئی اور اُسے احساس ہوا کہ یہ بھی […]
قومیں یوں پروان چڑھتی ہیں

ترجمہ: رؤف کلاسرا 1975ء میں اندرا گاندھی کو بیٹے سنجے گاندھی نے مشورہ دیا کہ اماں حضور! اب ملک میں نئے انتخابات کروانے کی بالکل ضرورت نہیں۔ ہم ماں بیٹا مل کر ہندوستان پر 20 تا 25 سال حکومت کر سکتے ہیں۔ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر مغل سنٹرل ایشیا سے اُٹھ کر […]
قرقاش زندہ باد! (فلسطینی ادب)

مترجم: محمد افتخار شفیع (ساہیوال) نوٹ:۔ یہ افسانہ انگریزی سے ترجمہ شدہ ہے۔ عدالت کی کارروائی ایک دور افتادہ گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہوئی۔ یہ کمرا مستطیل شکل کا تھا اوراس میں ایک گول میزاورچندکرسیوں کے سوا اورکچھ نہ تھا۔ کمرے میں موجود واحد میز پر قرآن مجید اور بائبل کا […]
شارلٹ برونٹے کا ناول ’’جین آئر‘‘ (تبصرہ)

تبصرہ نگار: فاطمہ عروج راؤ ’’شارلٹ برونٹے‘‘ (Charlotte Brontë) کا ناول ’’جین آئر‘‘ جس پر اَب تک تقریباً 10 فلمیں بن چکی ہیں، ایک فکشن ناول ہے۔ شارلٹ برونٹے ایک برطانوی مصنفہ تھیں، جن کا پہلا ناول اس لیے شہرت نہ پاسکا، کیوں کہ مصنفہ ایک گم نام لڑکی تھی…… لیکن ’’جین آئر‘‘ کے مشہور […]
گھاس کی پتیاں (تبصرہ)

تحریر: اقصیٰ گیلانی والٹ وٹمن 1819ء میں امریکی شہر نیویارک کے ایک غریب مستری کے گھر پیدا ہوا۔ 9 بہن بھائیوں میں اُس کا دوسرا نمبر تھا۔ وہ صرف چار پانچ برس ہی سکول جا پایا اور فقط 11 برس کی عمر میں تعلیم چھوڑ کر پہلے باپ کے ساتھ مزدوری کرنے لگا اور پھر […]
البرٹ کامیو کا ناول ’’اجنبی‘‘ (تبصرہ)

تبصرہ نگار: اذہان خان ’’آج ماں کا انتقال ہو گیا، شاید کل…… یقین سے نہیں کَہ سکتا!‘‘ یہ ناول اجنبی "The Stranger” کے پہلے ابتدائی فقرے ہیں۔ ’’میرسا‘‘ (Meursault) جس کی ماں کا انتقال بورڈنگ میں ہوگیا ہے، بورڈنگ جو کہ 60، 70 میل فاصلہ پر واقع ہے اور ’’میرسا‘‘ آفس کے ہیڈ سے چھٹی […]
ماچس والی لڑکی (انگریزی ادب)

ترجمہ: شازیہ شکور بَلا کی سردی تھی۔ شام اندھیری ہونا شروع ہو گئی تھی۔ بالآخر رات آگئی۔ سال کی آخری رات۔ ایک چھوٹی سی غریب بچی، ننگے سَر، ننگے پاؤں گلیوں میں پھر رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلی تھی، تو اُس کے پاؤں میں اُس کے اپنے نہیں بلکہ ماں کے چپل تھے، […]
موت کی خوشی (تبصرہ)

تبصرہ نگار: اقصیٰ سرفراز ’’البرٹ کامیو‘‘ کے اس ناول کے توسط میری ملاقات ورکنگ کلاس کے ایک ایسے نوجوان سے ہوئی ہے، جو دن رات خوشی کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ اُس کے نزدیک خوشی سے مراد دولت ہے۔ دولت کے بغیر انسان خوش و خرم، مطمئن اور پُرسکون نہیں رہ سکتا۔ وہ […]
ایک ہی کوکھ (موزمبیقی ادب)

مترجم: محمد فیصل (کراچی) اُن دنوں میرے دادا مجھے ساتھ لیے دریا کی جانب چل پڑتے اور اپنی چھوٹی سی کشتی جسے وہ ’’کونچو‘‘ کہتے تھے، میں مجھے بھی بٹھا لیتے۔ وہ بہت آہستگی سے چپو چلاتے۔ چپو شاید ہی لہروں سے ٹکراتے۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ پانی کے اوپر ہی اُنھیں […]