ایک جگنو تھا، بہت ہوش یار اور ذہین۔ اُس نے علامہ اقبالؔ کی مشہور نظم ’’ہمدردی‘‘ سنی تھی۔ وہ اسے ہر وقت گنگناتا۔
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
آج کے مسلمانوں کی طرح جگنو بھی اپنے اسلاف پر بہت نازاں تھا۔ اُس کے دل میں فخر نہیں، بل کہ غرور تھا کہ کس طرح اُس کے ایک بڑے نے راہ بھٹکے ہوئے بلبل کے راستے کو روشن کیا تھا اور اُسے منزلِ مقصود پر پہنچایا تھا۔ اس کی بھی بڑی خواہش تھی کہ کاش! ایسا موقع میرے بھی ہاتھ آئے اور اپنے جدِ امجد کی طرح کسی راہ بھٹکے، پریشان حال کو اپنی منزل تک پہنچا آؤں اور اپنے دادا کی طرح نام پیدا کروں۔
ایک شام جگنو اسی ارادے کے ساتھ نکلا۔ شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ اسی دھندلکے میں وہ اپنی ہی روشنی میں آگے کی طرف گام زن تھا۔ ایسے میں کیا دیکھتا ہے کہ کسی درخت کی شاخ پر ایک اُلو تنِ تنہا اُداس بیٹھا ہے۔ نہ صرف خفا ہے، بل کہ فریاد کناں بھی ہے۔ جگنو کو اس بات کا پتا نہیں تھا کہ یہ قوی الجثہ اُلو (جگنو کی نظر میں) سرِ شام رزق کی تلاش میں آشیانہ تیاگ دیتا ہے، اس لیے کہ اس کی بڑی بڑی مگر نازک آنکھیں سورج کی روشنی برداشت نہیں کرسکتیں۔
جب جگنو نے اُلو کو یوں خستہ حال دیکھا، تو بہت مغموم ہوا۔ یہاں تک کہ سسکیاں بھرنے لگا۔ اُس کی ’’رگِ ہم دردی‘‘ پھڑکی۔ اُسے پکا یقین تھا کہ اُلو راستہ تو بھٹک گیا ہے، لیکن وہ کسی تکلیف میں بھی مبتلا ہے، اس لیے فریاد کناں ہے۔ جگنو نے اپنی روشنی مزید تازہ اور تیز کردی، اس لیے کہ ڈیجیٹل دور ہے، خود نمائی بھی لازم ہے۔ ہر چیز کے لیے ویڈیو بھی ضروری ہے۔ چاہے وہ صدقہ و خیرات کا عمل ہو، کسی کے ساتھ بھلائی کرنا مقصود ہو، حتی کہ حج اور عمرہ کو بھی ویڈیو کے بغیر شرفِ قبولیت حاصل نہیں ہوتی۔
خیر! جگنو، اُلو کے قریب گیا اور اُسے علامہ اقبال کی پوری نظم (ہمدردی) سنا ڈالی۔ اُلو جواباً 80 ڈگری پر سر گھماتا رہا اور بالآخر کہنے لگا: ’’تم دیکھ نہیں رہے کہ ایک طرح سے میرے کان بالوں کے نیچے چھپے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے ثقلِ سماعت میں مبتلا ہوں۔ ازراہِ کرم اگر تھوڑا قریب آکر مذکورہ نظم سناؤ، تو مشکور رہوں گا۔‘‘
جگنو بھلائی کے نشے میں سرمست تھا، اگلے ہی لمحے اُلو کے اور قریب پہنچ گیا۔ اُلو ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر جگنو کو سالم نگل گیا اور کہنے لگا: ’’اس چھوٹے سے حشرے کو دیکھو، ویسے ہی دماغ خراب کر رہا تھا۔‘‘
نتیجہ:۔ انسان، موقع اور اپنی حیثیت کو دیکھ کر بھلائی کریں۔
(نوٹ:۔ محمد جمیل کاچوخیل کی پشتو انشائیوں پر مشتمل کتاب ’’زرغونی‘‘، مطبوعہ ’’گران خپرندویہ ٹولنہ سوات‘‘، سنہ اشاعت ستمبر 2024ء، سے ’’ہمدردی‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ انشائیے کا ترجمہ، مترجم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
