خلیل جبران کی نظم "Fear” کا اُردو ترجمہ

Wasim Malik

کہتے ہیں، سمندر کی وسعتوں میں اُترنے سے پہلے
دریا کے دِل میں اِک ہلچل سی مچتی ہے
ایک خوف انگڑائی لیتا ہے
وہ پلٹ کر اُن گزرگاہوں کو دیکھتا ہے
جو اُسے پہاڑوں کے دامن
جنگلوں کی تاریکیوں
اور بستیوں کے بیچوں بیچ
خمیدہ راہوں سے گزار کر
یہاں تک لے آئی ہیں
وہ اُن چوٹیوں کو تکتا ہے
جہاں سے ہو کر وہ یہاں تک پہنچا ہے
اُن پگڈنڈیوں کو یاد کرتا ہے
جو اُس کے ساتھ ساتھ چلتی رہیں
پھر وہ سامنے نگاہ اُٹھاتا ہے
ایک بے کنار سمندر
اس کی گہرائی اور وسعت
ایک اَن کہے خوف کو جنم دیتی ہے
کہ یہاں قدم رکھتے ہی
اُس کا اپنا وجود
مٹ جائے گا
مگر واپسی کا کوئی راستہ نہیں
واپس پلٹنا
دریا کی سرشت میں ہے ہی نہیں
کسی کی سرشت میں نہیں
دریا کو یہ خطرہ مول لینا ہوگا
اُسے سمندر میں اُترنا ہوگا
یہی وہ لمحہ ہے
جو اُس کے خوف کو ختم کرے گا
یہی وہ راستہ ہے
جو اُسے سکھائے گا
کہ سمندر میں ضم ہونا
اُس کی فنا نہیں
بل کہ
ایک نئے وجود
ایک نئی زندگی کی ابتدا ہے
(مترجم: وسیم ملک، 23 جنوری 2025ء)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے