گذشتہ انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی بڑی پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کارنر میٹنگز اور مساجد میں منعقدہ اجلاسوں تک محدود ہوگئی تھی یا کرا دی گئی تھی۔ اے این پی رہنماؤں پر حملے اور انہیں دھمکیاں اسی سلسلے کی کڑی تھیں۔ گذشتہ عام انتخابات میں پارٹی نے پختونخوا میں اس طریقے سے انتخابی مہم نہیں چلائی، جس طرح سے اسے چلانی چاہیے تھی۔ یہ اچانک سے ایک بڑی تبدیلی تھی۔ اس سے پہلے دو ہزار آٹھ میں صوبے پر حکومت کرنے والی پارٹی گذشتہ انتخابات میں اچانک منظرِ عام سے غائب ہوئی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے اے این پی نے اپنا مشکل ترین دور حکومت گزارا۔ جب 2013ء کے انتخابات ہوئے، تو اے این پی حیرت انگیز طور پر دوسرے نمبر پر بھی نہ آسکی، لیکن اس کے پیچھے کئی وجوہات تھیں۔ الیکشن کے دنوں میں پارٹی کے لیے پورے صوبے میں خوف کی فضا قائم رکھی گئی۔ دلچسپ بات یہ تھی مذکورہ صورت حال صرف اے این پی کے لیے مخصوص تھی۔ دوسری سیاسی جماعتیں بلا خوف و خطر اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہی تھیں۔ صوبے میں بڑے بڑے سیاسی جلسے بغیر کسی ناخوشگوار واقعات کے ہو رہے تھے۔ دوسری طرف اے این پی رہنما اس پریشانی میں مبتلا تھے کہ انتخابی مہم کیسے چلائیں؟ نتیجتاً پارٹی کارکن اور ورکز محدود ہوکر رہ گئے۔یوں اے این پی کی سیاسی سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔
اس طرح تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں قدرے خاموشی دیکھنے کو ملی اوراب جب حالیہ انتخابات قریب آگئے ہیں، تو اے این پی نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے بدلے میں ہارون بلور کی شہادت مل گئی۔
اب کی بار ایک بار پھر سے اے این پی رہنما ہارون بلور پر حملہ کرکے پارٹی کو واضح پیغام دیا جاچکا ہے۔ اس سے پہلے ان کے والد بشیر بلور بھی شہید کردیے گئے تھے۔ میرے خیال سے یہ ’’پری پول دھاندلی‘‘ ہے کہ کسی پارٹی کو انتخابی مہم تک نہ چلانے دی جائے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ گذشتہ انتخابات کی روایت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف یہاں واقعہ کے بعد سے چند لوگوں کی جانب سے ایسے تجزیے دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اے این پی ہمدردی کا ووٹ لینے کے لیے اپنے رہنماؤں کو قتل کر وا رہی ہے۔
اس حوالہ سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا اے این پی کو ہمدردی کا ووٹ صرف بلور خاندان کو نشانہ بنانے سے مل سکتا ہے؟ اس سے تو صرف بلور خاندان کے حلقہ میں ہی ووٹ مل سکتا ہے۔ ایک یا دو رہنماؤں کی حادثاتی یا کسی بھی حوالے سے واقع ہونے والی موت ہمدردی کی آڑ میں دو تین حلقے تو جتواسکتی ہے، لیکن اس سے پورے صوبہ میں ہمدردی کی بنیاد پر کسی کو اقتدار مل جائے گا، یہ ناممکن ہے۔ ایسا عمل اگر ایک طرف کچھ حلقوں میں ہمدردی کا ووٹ دلائے گا بھی، تو دوسری طرف پورے صوبے میں کارکنان کو خوفزدہ بھی کرے گا۔ اِدھر اگر ایک دو حلقے ہاتھ آئیں گے، تو اُدھر پورے صوبے میں پارٹی کی سیاسی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ اس کے علاوہ یہ ہمدردی کا ووٹ چوٹی کے رہنماؤں (جیسے کہ میاں افتخار حسین کے بیٹے اور بلور خاندان) کو نشانہ بنانے سے حاصل ہورہا ہے، تو پھر ہمدردی کا ووٹ ملے گا کس کو؟ یہ کسی فردِ واحد کا کام تو نہیں ہوسکتا کہ جو پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو بھی نہیں بخش رہا۔
دوسری بات یہ کہ اگر صرف بشیر بلور یا ہارون بلور کے حلقے کی سیٹ جیتنا مقصود تھا، تو اس پر بشیر بلور کی موت کی وجہ سے پہلے ہی سے ہارون بلور کے جیتنے کے چانسز تھے۔ اور اگر ہمدردی کے لیے ایسا کیا جارہا ہے، تو کیا اب تک جتنے بھی سیاسی رہنما قتل کیے جاچکے ہیں، انہیں اپنے ہی لوگوں نے قتل کروایا؟ اور اگر ایسا کیا بھی گیا، تو تحقیقات کیوں نہیں ہوئیں؟
اوپر سے ایسے نازک حالات میں چیف جسٹس صاحب نے سیاست دانوں کی سیکورٹی بھی واپس لے لی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چیف صاحب خود سیکورٹی لینے سے نہیں کتراتے اور ایک اچھے خاصے پروٹوکول کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں۔ عرض ہے کہ ہمارے ہاں ایسے حالات ہیں کہ پروٹوکول یا سیکورٹی لینا سیاست دانوں کی مجبوری بن گئی ہے۔ تمام سیاست دانوں کو پتا ہے کہ پروٹوکول لینا انہیں سیاسی طور پر عوام کی نظروں میں گراتو سکتا ہے، پر کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ لیکن اس کے باوجودحالات کے تناظر میں آج تک کسی بھی بڑے سیاست دان نے پروٹوکول لینے سے انکار نہیں کیا ہوگا۔ حالات ٹھیک ہوتے، تو چیف جسٹس صاحب پہلے خود پروٹوکول واپس لیتے اور بعد میں دوسروں کے لیے ایسا حکم جاری کرتے۔
اے این پی کے گذشتہ دورِ حکومت کی بات کی جائے، تو بعض پارٹی رہنماؤں کے انفرادی کردار کو بالائے طاق رکھ کر اے این پی کا منشور امن اور تعلیم تھا۔ پارٹی نے مشکل وقت میں صوبے میں جاری کئی فوجی آپریشنز کو جس طرح ہینڈل کیا، وہ واقعی لائق تحسین ہے۔ اُن دنوں جاری آپریشنز کی وجہ سے لاکھوں لوگ در بہ در ہوئے، لاکھوں آئی ڈی پیز بنے، ان کی آباد کاری اور ان کے لیے انتظامات جیسے مشکل ٹاسک میں اے این پی نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی جاری رہی کہ کس طرح انہیں اپنے گھروں اور علاقوں میں دوبارہ بھیجا جائے؟ خراب حالات کے باوجود کئی ترقیاتی کام جاری رہے۔ نئی یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ یہ کہنا درست ہے کہ اس وقت پارٹی جنگ زدہ صوبے میں برسر اقتدار تھی۔ اے این پی کی جگہ کوئی اور پارٹی ہوتی، تو شاید اقتدار کے آخری دن تک یہی رونا روتی کہ ہمیں تو خراب اور کشیدہ حالات نے حکومت نہیں کرنے دی۔
آمدم برسر مطلب، حالیہ سانحہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر وہ کون سے عناصر ہیں جو تمام پارٹیوں کو چھوڑ کر صرف اے این پی پر وار کرتے ہیں؟ کیا اے این پی کے علاوہ دوسری پارٹیاں بڑے بڑے جلسے نہیں کرتیں، صوبے میں اے این پی ہی ہے جو سیاست اور سیاسی سرگرمیاں کررہی ہے ؟ یا پھر صرف اے این پی ہی ’’کسی‘‘کے آگے مزاحمت کر رہی ہے جو اسے راستے سے ہٹانے کی دوسری بار منظم کوشش کی جا رہی ہے؟ جس طرح ن لیگ اور اب اے این پی نشانہ بن رہی ہے، ایسا تو نہیں ہے کہ ’’پنجاب میں ن لیگ کو قابو کرو اور پختونخوا میں اے این پی کو؟‘‘ سیکورٹی نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے ناساز حالات کو قابو میں لائیں۔ قاتل جو بھی ہو، اس کو روکنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اے این پی یا کسی بھی سیاسی پارٹی کو نشانہ بنانا جمہوریت کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔ ایسی مداخلت سے بہتر ہے عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔ صوبے کی اہم سیاسی پارٹی کو اس طرح اپنی سیاسی سرگرمیوں سے روکنا، اس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا اور دھمکیاں دینا کسی صورت قابل قبول امر نہیں۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔