پی کے پانچ کا مختصر تجزیہ

سوات کا سب سے اہم ترین حلقہ پی کے 5 زیادہ تر مینگورہ شہر پرمشتمل ہے۔ اس حلقہ میں الیکشن کمیشن کے مطابق کل رجسٹرڈ ووٹرز ایک لاکھ چوّن ہزار ہیں، جن میں ساٹھ ہزار سے زائد خواتین کا ووٹ بھی شامل ہے۔ اس حلقے سے کل 15 امیدوار مقابلے میں ہیں جن میں کچھ سبک دوش ہوچکے ہیں۔اہم پارٹیوں میں پی ٹی آئی کے سابقہ ایم پی اے فضل حکیم، عوامی نیشنل پارٹی کے سابقہ ایم پی اے واجدعلی خان، ایم ایم اے سے سابقہ ایم پی اے محمد امین، پاکستان مسلم لیگ کے ارشاد علی خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے امیرزیب شہریار، قومی وطن پارٹی کے فضل الرحمان نونو جب کہ دیگر آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار بھی مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں۔
مینگورہ میں سوات کے دیگر حصوں کے برعکس انتخابی سرگرمیاں الگ قسم کی ہیں۔ یہاں پر مسائل الگ نوعیت کے ہیں جب کہ ووٹرکا مزاج بھی دیہی علاقوں کے برعکس الگ قسم کا ہے۔ یہاں پر ووٹ ’’خان اِزم‘‘ یا ’’قوم‘‘ کو نہیں جاتا۔ کیوں کہ یہ شہری علاقہ ہے اور لوگ زیادہ تر آزاد اور خودمختار ہیں۔ ایک ہی گھر میں مختلف ذہنیت والے افراد موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح برداشت زیادہ ہے۔ ایک دوسرے کومجبور نہیں کیاجاتا۔ لوگوں میں سیاسی بصیرت زیادہ ہے۔
حلقہ پی کے پانچ سے جو امیدوار مقابلے میں ہیں، تقریباً تمام مینگورہ کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ مینگورہ شہر میں سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کا ہے۔ اس کے بعد بجلی، صفائی، تعلیم، صحت اور دیگر مسائل کی باری آتی ہے۔ اس وقت جو امیدوار مقابلے میں ہیں، تمام کے تمام اپنی جیت کے لیے پُرامید ہیں۔ سبھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ لے کراقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرسکیں۔

سیاسی ماہرین چار پارٹیوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع رکھتے ہیں جن میں پی ٹی آئی، ایم ایم اے، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن شامل ہیں۔ کیوں کہ ان پارٹیوں نے ماضی میں اس علاقے سے کافی تعداد میں ووٹ لیاہے۔ مذکورہ پارٹیوں میں ایم ایم اے، اے این پی اور پی ٹی آئی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔پی ایم ایل کو اس وجہ سے مقابلے میں شریک کیاجارہاہے کہ شہباز شریف اس حلقے کی قومی اسمبلی سے انتخاب لڑرہے ہیں، تو ان کا اثر براہِ راست صوبائی سیٹ پر ہوگا۔ پی پی پی نے ماضی کے تین انتخابات میں اس حلقے سے کوئی خاطر خواہ ووٹ نہیں لیاہے۔ اس لیے ان کی کامیابی کی امید نہیں کی جارہی ہے۔ البتہ اس کے امیدوار امیر زیب شہریار کے خاندانی پس منظر کی وجہ سے پی پی پی کو ووٹ مل سکتا ہے۔ اس طرح باقی آزاد امیدوار اور دیگر پارٹیوں کا شخصی ووٹ بھی موجود ہے، اور وہ بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا سکتے ہیں۔ ذکر شدہ ووٹ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوگا۔
پی کے 5میں قبل از وقت اندازے لگانا مشکل بھی ہے۔ کیوں کہ ووٹر کے موڈ کا کچھ پتا نہیں کہ کس وقت تبدیل ہوجائے اور وہ ایک ہی امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرلے۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ خاموش ووٹ کسی خاص پارٹی کے حق میں نہیں جارہا بلکہ یہ شخصیت کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہی ووٹ کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اب جب کہ انتخابات میں کچھ ہی دن باقی ہیں، تو ملکی سیاست پر نوازشریف اور ان کی بیٹی کی واپسی، گرفتاری اور پشاور میں اے این پی کے رہنما ہارون بلور پر خودکش حملہ انتخابات میں اثرانداز ہوں گے ۔اگر خدانخواستہ آگے کچھ ناخوشگوار واقعہ ظہور پذیر ہوا،تو وہ بھی ووٹرکے فیصلے پر اثرانداز ہوگا۔ آنے والے وقت کے بارے میں کوئی بھی درست اندازہ نہیں لگاسکتا مگر حالات، واقعات اور تجربات انسان کو آنے والے حالات کی نشان دہی ضرور دیتے ہیں۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔