فبای الاء ربکما تکذبان

اللہ رب العزت نے کائنات کی تمام اشیاء کو انسان کے فائدے کے لیے تخلیق کیا اور انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ قرآن کریم کی سورۂ رحمن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے گروہِ انس و جن! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔‘‘
زمین کی یہ خوب صورتی، فضا کی فرحت، تازگی اور صفائی، گنگناتی آبشاریں، ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے، زندگی، دریا، بہتی ندیاں، زخارسمندر، چاندی اوڑھے ہوئے سفید برف سے ڈھکے پہاڑ، رنگ رنگ کے خوبصورت پھول، میٹھے، لذیذ مختلف النوع پھل، جڑی بوٹیاں اور ان سے بنی ہوئی دوائیاں جو بیماریوں سے سسکتے ہوئے انسانوں کو صحت اور آرام دیتی ہیں، کیا کسی نے غور کیا ہے کہ ان تمام نعمتوں کا منبع اور سر چشمہ کیا ہے؟ تو یقینا یہ ’’درخت‘‘ ہی ہیں۔
درخت کرۂ ارض کی سب سے قدیم چیز اور بنیادی ضرورت ہے۔ جب زمین کی تخلیق ہوئی، تو خالق ارض و سما نے سب سے پہلے اس پر درخت اُگائے، تاکہ ان سے زمین پر آباد جان داروں کی ضروریات پوری ہوں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی نے جہاں موجودہ دور کے انسانوں کو کئی سہولیات بہم پہنچائیں، وہاں انسان کئی فطری مسائل سے بھی دوچار ہوا۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ صنعتوں اور دیگر عوامل نے جنگلات اور درختوں کو متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام براعظموں میں جنگلات کا سرعت سے خاتمہ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ بر اعظم اسٹریلیا بھی بچ نہیں پا رہا۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، تو کرۂ ارض کا خدا ہی حافظ۔
وطن عزیز میں شجر کاری کی مہم سال میں دو دفعہ یعنی موسم بہار اور موسم برسات میں چلائی جاتی ہے۔ مسلح افواج، محکمہ جنگلات اور کچھ دیگر ادارے شجر کاری کرکے یہ مہم بڑے زور و شور سے لانچ کرتے ہیں۔ سرکاری طور پر ماہِ جولائی اور مارچ کے وسط سے اس مہم کی ابتدا ہوتی ہے۔ امسال موسم برسات کی یہ مہم وسط جولائی سے شروع ہوکر آواخر اگست تک جاری رہے گی۔
ہمارے ملک میں جنگلات کل رقبے کا پانچ فیصد ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں درختوں اور جنگلات کی ضرورت و افادیت کو اُجاگر کیا جائے۔ انہیں یہ بتایا جائے کہ جنگلات اور پودوں کی افراط سے لکڑی کی ضرورت پوری ہے۔ اس کے علاوہ شجر کاری سے زراعت، لائیو سٹاک، سیاحت اور پانی کے وسائل کے شعبوں میں فروغ آئے گا جبکہ جنگلات اور درختوں کی بے دریغ کٹائی اور لاپروائی سے پانی اور ماحول آلودہ ہوں گے۔ درجۂ حرارت کی اَپ گریڈیشن اور زمین کی ڈی گریڈیشن ہوگی، جو سیلاب کا سبب بنے گی۔ لہٰذا بغیر کسی شدید ضرورت کے درخت نہ کاٹے جائیں بلکہ حتی الوسع مزید شجر کاری کی جائے۔

درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے

درخت لگانا صدقۂ جاریہ اور اجر دارین ہے۔ درختوں اور جنگلات کی بدولت فضا صاف رہتی ہے۔ ماہرین کے خیال کے مطابق ایک درخت تیس انسانوں کو تازہ آکسیجن مہیا کرتا ہے اور اسی طرح صاف ماحول میں انسان صحت مند رہتا ہے۔
ہمارے اسلاف نے حتی المقدور شجر کاری کی۔ خود آنحضرت ﷺ نے اپنے دست مبارک سے درخت لگائے اور آپﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے بھی یہ کام جاری رکھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جن علاقوں کو فتح کیا، وہاں درخت، پھلوں اور پھولوں کے باغات لگائے۔ مسلمان حکمرانوں کے حکم سے مسافروں اور راہ گیروں کی سہولت کے لیے سڑکوں کے کنارے درخت لگائے گئے۔
درخت انسان اور دوسری جنگلی حیات کی بقا کا ضامن ہے۔ خود تو تیز دھوپ میں جھلستا اور دکھ جھیلتا ہے لیکن ایک شفیق ماں کی طرح دوسروں کو ٹھنڈی چھاؤں اور آرام کے علاوہ میٹھے پھل اور پُرسکون ماحول مہیا کرتا ہے۔ اس لیے ہم سب کا فرض ہے کہ ماں کے اس دوسرے روپ کی حفاظت کرکے کرۂ ارض کا حسن اور بہتر ماحول کو برقرار رکھیں۔
نوٹ! کچھ حضرات نے ہمیں اپیل کی ہے کہ ’’ؐ‘‘ کی بجائے پورا ﷺ لکھا جائے، اس لئے اس تحریر میں ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔