محمد علی کی فلم آئنہ اور صورت کا پوسٹر

محمد علی کی فلم آئنہ اور صورت کا پوسٹر

سال 1964ء کا زمانہ تھا۔ ہم جماعت دوم میں پڑھتے تھے۔ مینگورہ کے مشہور ’’میرجو‘‘ کباب کڑاہی سے متصل دیوار کے اوپر حصے پر جو مین بازار کی طرف واقع ہے، ایک فلمی پوسٹر چسپاں تھا جس پر ایک وجیہہ نوجوان کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ تصویر میں نوجوان لانگ بوٹ پہنے ہوئے تھا اور اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ کھڑے تصویر کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ یہ نوجوان بھارتی فلم انڈسٹری (بالی ووڈ) کا نمبر ایک فلمی ہیرو دلیپ کمار (یوسف خان پشاوری) ہے۔ یہ پوسٹر اس وقت کی مقبول اور سپر ہٹ فلم ’’آن‘‘ کی تھی اور دلیپ کمار ہی اس فلم کا ہیرو تھا۔ ہمیں بھی اس ہیرو کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ بعد میں ہم نے دلیپ کمار صاحب سے متعلق کافی معلومات حاصل کیں۔ یہ کہ موصوف فلمی ہیرو کے علاوہ ایک شریف النفس، دلِ درد مند رکھنے والا ایک عالم فاضل انسان ہے اور عالمی ادب پر اس کی گہری نظر ہے۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگی۔ البتہ ہم نے وی سی آر اور دوسرے ذرائع سے دلیپ کمار کی کچھ فلمیں دیکھیں اور تنقیدی جائزہ لیا کہ دلیپ کمار کی اداکاری واقعی لاجواب ہے اور موصوف ٹریجڈی کا بادشاہ ہے۔ اس زمانے میں بالی ووڈ میں راج کپور نام کا ایک دوسرا مقبول ہیرو بھی تھا، لیکن ہماری نظر ہمیشہ دلیپ کمار کی اداکاری پر مرکوز رہی۔
1960ء اور 1970ء کی دہائیاں پاکستان فلم انڈسٹری کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے سنیما ہالوں میں کافی پاکستانی اُردو فلمیں دیکھیں۔ اس وقت دو سینئر فنکار لالہ سدھیر (مرحوم) اور محمد علی (مرحوم) لڑکوں اور نوجوان کے پسندیدہ فلمی ہیروز تھے۔ ہمارا پسندیدہ فلمی ہیرو محمد علی تھا۔ لالی ووڈ کے اس خوبصورت، دراز قد اور پڑھے لکھے اداکار کا تعلق ایک عالمی اور مذہبی گھرانے سے تھا جبکہ محلے اور سکول کے کئی دوسرے لڑکے لالہ سدھیر کو بہ طورِ ہیرو پسند کرتے تھے۔ لالہ جی جن کا اصل نام شاہ زمان خان تھا، پشاور کے ایک معزز پٹھان گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد کو انگریزوں نے حریت پسند ہونے کی پاداش میں تختۂ دار پر لٹکایا تھا۔ سڈول جسم والے یہ خوبرو نوجوان تقسیم ہند کے بعد بھارتی فلم انڈسٹری سے لالی ووڈ چلے آئے۔ لڑکوں اور نوجوانوں کے درمیان عموماً نوک جھونک جاری رہتی اور ہر گروپ اپنے اپنے ہیروں کی تعریف کے پل باندھتا۔ محمد علی (مرحوم) جنہیں اپنی نیچرل اداکاری اور دلکش مکالموں کی بدولت شہنشاہِ جذبات کہا جاتا تھا، ہم خود ان کی خوبصورت اداکاری اور جذباتی مکالموں کو پسند کرتے تھے۔ ان کے مکالمے نہایت شستہ، صفا اور جذبات سے بھر پور تھے جبکہ عام زندگی میں (مرحوم) ایک سوشل اور اچھے انسان تھے۔ اس کے علاوہ ہم نے جنگجو ہیرو لالہ سدھیر کی فلمیں بھی دیکھی تھیں۔ لالہ جی اپنی جنگجویانہ اداکاری اور مخصوص و سادہ گیٹ اَپ کی وجہ سے اس وقت کے نوجوانوں میں مقبول اور ان کے پسندیدہ ہیرو تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب کسی فلم کی اختتامی سین میں لالہ سدھیر کسی کافر بادشاہ کے فوجی قلعہ کو فتح کرکے اس پر اسلام کا سبز ہلالی پرچم لہراتا، تو ہال تحسین اور اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھتا۔
اس زمانے کی فلمیں صاف ستھری اور فحاشی سے پاک تھیں۔ گانے اور موسیقی بھی دل پسند تھے۔ یہ فلمیں عموماً تاریخی اور ملی کہانیوں اور واقعات پر مبنی قومی کلچر سے بھر پور ہوا کرتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ یہ فلمیں خاص و عام اور جوانوں اور بزرگوں میں یکساں مقبول تھیں۔ اس زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری میں ندیم، وحید مراد اور شاہد جیسے ہیروز کا بھی چرچا تھا اور لوگ ان کی فلمیں بھی ذوق و شو ق سے دیکھتے تھے۔
1973ء میں ہم جماعت دہم میں پڑھتے تھے۔ پاکستان فلم انڈسٹری میں فنکار برادری میں انتخابات ہو رہے تھے۔ لالہ سدھیر اور محمد علی مقابل صدارتی امیدوار تھے۔ مدارس اور محلہ جات میں نوجوان اور طلبہ شدید انتظار میں تھے۔ اسی اثنا میں یہ افواہ پھیلی کہ الیکشن مہم کے سلسلے میں لالہ جی اور علی بھائی کے درمیان ’’تو تو میں میں‘‘ ہوئی بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ دونوں ہیروز کے پرستار اس افواہ سے نہایت مضطرب اور پریشان تھے۔ آخرِکار اس افواہ کی سختی سے تردید آئی، تب دونوں ہیروز کے پرستاروں میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ انتخابات کا نتیجہ بھی نکلا اور لالہ سدھیر بہ طور صدر انتخابات جیت گئے۔ اس وقت لالہ جی کے پرستاروں کا جوش و جذبہ اور خوشی دیدنی تھی۔
وقت گزرتا رہا پشتو فلموں کا دور آیا۔ ابتدائی دور کی فلمیں صاف ستھری اور کلچرل تھیں۔ فحاشی اور بے ہنگم موسیقی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت کی پشتو فلموں میں بدر منیر (مرحوم) اور آصف خان عوام میں بہ طورِ ہیرو مقبول تھے۔ بدر منیر کی جان دار اور جذباتی اور آصف خان کی رومانی اداکاری سے ہم محظوظ ہوتے رہے۔ ہم آصف خان کے بہ طور ہیرو پرستار تھے۔ یہ دور 1980ء تک رہا۔ اس کے بعد نہ وہ صاف ستھری اور کلچرل فلمیں رہیں اور نہ وہ پرسکون حالات۔ عوام نے سنیما ہالوں کا رُخ کرنا ترک کر دیا۔ اس لیے پاکستان فلم انڈسٹری کا زوال شروع ہوا اور نتیجے کے طور پر سنیما ہالز ویران ہوگئے۔
واقعی جو مزہ، خوشی اور تفریح اس وقت کی فلمیں دیکھ کر حاصل ہوتا تھا، اب وہ کہاں!
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو