پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں واقعات، سانحات اور حادثات اس طرح رونما ہوتے ہیں جیسے چیونٹیاں زمین سے نکلتی ہیں۔ جس طرح چیونٹیوں کا شمار کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس طرح پاکستان کے معروضی حالات میں یہ بتانا بھی اب ممکن نہیں رہا کہ کون سا واقعہ اہم ہے اور کون سا غیر اہم؟ کس حادثے کو اہمیت اس کی اوقات سے زیادہ مل گئی ہے یا کس حادثے کو سرے سے نظر انداز ہی کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ترجیحات، قومی مفادات یا عوام نہیں ترتیب دیتے بلکہ ہمارا میڈیا خود ترتیب دیتا ہے۔ ہمارا میڈیا ہمیں یہ نہیں دکھاتا کہ پاکستان کا مفاد کس میں ہے یا کون سی خبر، واقعہ، سانحہ دکھانا ملکی مفاد میں ہے بلکہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے چکر میں ہمارا میڈیا ذمہ داری اور مدد کے دائرے سے بالکل باہر نکل چکا ہے۔
پانامہ کیس کی گرد ابھی تھمی نہیں ہے کہ عمران خان کے خلاف کیس آگے بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ ابھی پانامہ کا فیصلہ آئے گا کہ ساتھ ہی چوہدری نثار علی خان صاحب کی ناراضگی خبر بن چکی ہے۔ ہر نئے دن نیا موضوع بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اس پورے جھمیلے میں ہمیں نوشہرہ کے ایک ہسپتال کا منظر بالکل بھی متاثر نہ کر پایا جہاں ایک بوڑھی عورت زخمی حالت میں بیٹھی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ بوڑھی عورتیں زخمی ہونا پاکستان میں معمول کی بات ہے۔ اس میں حیرانی کیسی؟ بات تو آپ کی ٹھیک ہے۔ پاکستان میں ہر دوسرے دن چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہوتا رہتا ہے۔ سکولوں میں عصمتیں لٹ رہی ہیں۔ چوراہوں پہ عزتیں نیلام ہو رہی ہیں، تو اس پہ حیرانی کیسی؟ مگر ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ 1946ء میں لکی مروت کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والی آج کی اس بوڑھی عورت کو بھی ایک معمول کا واقعہ سمجھ لیتے ہم، اگر یہ عورت ’’زرسانگہ‘‘ نہ ہوتی۔ چلئے، تھوڑا اور آسان کر دیتے ہیں۔ یہ زخمی عورت جو ٹوٹے سے بینچ پر بیٹھی ہے، یہ وہ ہے جسے پشتو لوگ گلوگاری میں ’’ملکہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بوڑھی عورت کو ’’صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا جا چکا ہے۔

زرسانگہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے

زرسانگہ کے خاندان اور پڑوسیوں میں رقم کے لین دین کا تنازعہ ہوا۔ سوات سے جب وہ اپنے علاقے ازاخیل واپس آئے، تو ہفتے کی رات کو یہ واقعہ پیش آیا۔ اس معاملے میں کم و بیش پانچ لاکھ کی رقم کا تنازعہ تھا۔ اور پاکستان کی پہچان لہولہان کر دی گئی۔
زرسانگہ کے بیٹے ہجران کے مطابق پولیس نے بھی تعاون نہیں کیا۔ وہ بے چاری کرتی بھی کیوں؟
زرسانگہ سیاستدان ہوتی، یا کسی این جی او کی نمائندہ، تو شاید اس کی سنی جاتی، اسے علاج بھی فوری فراہم کر دیا جاتا۔ مگر اُس کی آواز میں جب تک دم رہا، وہ پشتو کو عالمی سطح پر متعارف کرواتی رہی۔ مجھے حیرانی یہ ہوتی ہے کہ ہم فنکاروں کو اعزازات سے تو نواز دیتے ہیں، لیکن کیا ہم مڑ کے خبر بھی لیتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟ اپنے آپ سے شرمندگی ہوتی ہے کہ صوبے کی حکومت تبدیلی کی امین، وفاقی کی حکومت ترقی کی امین مگر ان کے پاس پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بننے والی زرسانگہ کے قرض کی رقم ادا کرنے کی رقم بھی نہیں؟
ہمارے لیے شاید ان لوگوں کا دفاع اہم ہے کہ جن کا پیسہ معلوم ہی نہیں دنیا کے کس کس کونے میں ہے؟ یا شاید ہمارے لیے وہ راہنما اہم ہیں جن کی رہائش گاہیں سیکڑوں ایکڑ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یا ہمارے لیے کوئی بدیسی ماڈل زیادہ اہم ہو گی جس کے تن پہ اتنا کپڑا بھی مشکل سے ہو کہ ستر پوشی کی جائز ضرورت بھی پوری کر پا رہا ہے۔ ہمارے لیے زرسانگہ بھلا کیوں اہم ہوگی؟ اس بے چاری نے تو پاکستان کی خدمت کی، پشتو زبان کی ترویج کی۔ اُس کو شاید پتا نہیں تھا کہ یہاں پرائڈ آف پرفارمنس سے نام زندہ نہیں رہتے۔ یہاں نام رج کے کرپشن کرنے سے رہتے ہیں۔ یہاں لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ سادگی سے پاکستان کی خدمت کی جائے بلکہ لوگ اُس کے نام کے نعرے لگاتے ہیں جو اس ملک کی جڑوں میں دیمک کی طرح لگا ہو۔
ایک چیز ہوتی ہے قومی غیرت۔ مفقود تو ہے لیکن پھر بھی پاکستانیوں میں کثرت سے مل جاتی ہے۔ ہاں، حکومتی سطح پر خال خال ہی ملتی ہے۔ لہٰذا کہنا بنتا نہیں مگر حجت اتمام تو کرنی ہے وفاقی حکومت سے کہہ کر، صوبائی حکومت سے کہہ کر کہ خدارا، آپ جو عدالتوں میں ایک دوسرے کو گھسیٹ رہے ہیں، اس سے فرصت ملے، تو زرسانگہ کی کوئی مدد کر دیجیے گا۔ اپنی کوئی بے نامی جائیداد ہی اُس پاکستان کی پہچان کے نام وقف کر دیجیے گا۔ کیوں کہ آپ کے اثاثے پوری دنیا میں بھی پھیلے ہوں، تو آپ کے لیے کم ہیں۔
غریب پاکستانیوں کو تو دو وقت کی روٹی ہی میسر آ جائے، تو شکر ادار کرتے ہیں۔
فرق ہے جناب! محب وطن ہونا بہت مشکل ہے۔ پاکستان کی پہچان بننا بہت مشکل کام ہے۔ ہر کوئی زرسانگہ نہیں بن سکتا۔ قدر کیجیے ۔