علامتی افسانہ

جدید اردو افسانے کے رجحانات میں علامتی پیرایۂ اظہار کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر اچھا افسانہ، کہانی کے عقب میں موجود امکانات یعنی کہانی کے مخفی پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے، ابعاد کو چھوتا ہے۔ بصورتِ دیگر افسانہ، کہانی کی سطح سے اوپر اٹھنے میں کامیاب نہ ہوگا اور محض اکہری صورت، واقعہ کے بیان تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔ مگر جب ہم افسانے کے علامتی رجحان کا ذکر کرتے ہیں، تو دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کسی ایک دور میں بعض خارجی اور داخلی وجوہ کے باعث افسانہ نگار نے واقعہ کے خدوخال کو دھندلا کیا ہے، تاکہ اس کے عقب میں موجود نقوش شوخ ہو جائیں، مگر اس قدر نہیں کہ وہ کسی اور افسانے کے خدوخال بن جائیں۔ اس ضمن میں V.S.Seturaman نے لکھا ہے: ’’تصنیف (Text) ایک نقاب در نقاب ساخت ہوتی ہے، جس میں دوسری تصانیف کے حوالے مدہم طور پر موجود ہوتے ہیں۔ گویا تصنیف کی حیثیت "Palimpsest” ایسی ہوتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ "Palimpsest” اس تحریر کو کہتے ہیں جس کے نیچے سے مٹی ہوئی تحریر کی مدہم جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اس خیال کا اطلاق اگر افسانے پر کیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر افسانے کے اندر مخفی نقوش موجود ہوتے ہیں۔ علامتی افسانہ نگاروں کا امتیازی وصف یہ ہے کہ انہوں نے ہرافسانے کے اندر کی مخفی سطحوں کو دریافت کیا ہے اور انہیں افسانوی پیکر عطا کیا ہے، مگر جدید اردو افسانے کے اس علامتی رجحان کا ذکر کرنے سے پہلے خود علامت کے مفاہیم کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔
لفظ سمبل (Symbol) یونانی لفظ (Symbolon) سے نکلا ہے اور خود یہ لفظ دو لفظوں (Sym) اور Bolon)) کا مرکب ہے۔ پہلے لفظ کا مفہوم ’’ساتھ‘‘ ہے اور دوسرے کا ’’پھینکا ہوا‘‘۔ چناں چہ پورے لفظ کا مطلب ہوا ’’جسے ساتھ پھینکا گیا۔‘‘ اصل یونانی مفہوم میں اس کا استعمال کچھ یوں تھا کہ دو فریق کوئی چیز مثلاً (چھڑی یا کوئی سکہ) توڑ لیتے تھے اور بعد میں ان دو ٹکڑوں کو دونوں فریقوں کے درمیان کسی معاہدے کی شناخت کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح سمبل کا مطلب ہوا کسی چیز کا ٹکڑا جسے جب دوسرے ٹکڑے کے ساتھ رکھا جائے یا ملایا جائے، تو وہ اس اصل مفہوم کو زندہ کر دے یا یاد دلادے جس کا وہ شناختی نشان ہے۔
وہ اس بارے میں مزید اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
1:۔ جب کسی لفظ کو نئے مفاہیم عطا کیے جاتے ہیں، تو علامت معرضِ وجود میں آتی ہے۔
2:۔ علامت کسی مفہوم یا قدر کی نمائندگی کرتی ہے۔
3:۔ علامت بیک وقت معاشرے کے افراد کی دلچسپیوں کا نقطۂ ارتکاز، ذریعۂ ابلاغ اور باہمی مفاہمت کی مشترکہ اساس ہے۔
4:۔ مذہبی رسومات، علامتوں ہی کے حصار میں مقید ہوتی ہیں۔
5:۔ بیشتر علامتیں فقط ضابطۂ کردار کی نمائندگی کرتی ہیں اور فرد سے مکمل اور جامع وفاداری کی متقاضی ہوتی ہیں۔
6:۔ ہرعلامت کی کچھ معلوم اور معروف توسیعات ہوتی ہیں اور کچھ نسبتاً غیر معروف۔
جدید افسانے کا آغاز 1955ء میں ہوا اور باقاعدہ علامتی افسانہ کی ابتدا 1960ء کے لگ بھگ پاکستان میں انتظار حسین، خالدہ حسین، انور سجاد اور ہندوستان میں جوگندرپال اور سرپندر پرکاش کی معرفت ہوئی۔ افسانہ معلوم سے نامعلوم کے سفر پر ہے، کیوں کہ حقیقت صرف وہی کچھ نہیں جو ہمیں دکھائی دیتی ہے بلکہ اصل حقیقت وہ ہے جو ہماری سطحی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ جدید افسانہ ماضی سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی تلاش میں مصروف نظر آتا ہے۔ تلاش کے اس عمل میں داستان کی بھرپور اسلوبیاتی سپلائی لائن سے استفادہ کرنے کا رجحان نمایاں تر ہے اور نئی کہانی میں علامت، تمثیل، کتھا اور داستان مل کر ایک نیا تخلیقی پیکر اختیار کر رہے ہیں۔

جدید افسانے کا آغاز 1955ء میں ہوا اور باقاعدہ علامتی افسانہ کی ابتدا 1960ء کے لگ بھگ پاکستان میں انتظار حسین، خالدہ حسین، انور سجاد اور ہندوستان میں جوگندرپال اور سرپندر پرکاش کی معرفت ہوئی۔

بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ’’نئے افسانے میں داستانوی افسانہ، علامتی افسانے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ نیز یہ بھی کہ علامت ہمارے لاشعور کو تمثیلی پیرائے ہی کے ذریعے راس آتی ہے اور اردو کے نئے افسانے میں اکثر و بیشتر تمثیلی عنصر، علامتی عنصر کے ساتھ باہم آمیز ہو کر آتا ہے، اس میں قدیم کتھا کہانی کی سادگی بھی ہے اور آرٹ کا ڈسپلن بھی۔ چناں چہ افسانوی یا تمثیلی کہانی کی الگ درجہ بندی غلط ہے اور یہ اصلاً علامتی کہانی ہی کا ایک پیرایہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے علامتی تمثیلی کہانی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ اردو افسانے میں علامت کا استعمال اچانک شروع نہیں ہوا بلکہ علامتی افسانے کا شانہ روایتی افسانے کے شانے کے ساتھ ملا ہوا ہے، چناں چہ علامتی افسانے کی تحریک بپا ہونے سے پہلے احمد علی (میرا کمرہ)، سعادت حسن منٹو (پھندنے، ٹوبہ ٹیک سنگھ)، عزیز احمد (مدن سینا اوررصدیاں)، کرشن چندر (غالیچہ اور ایک سریلی تصویر)، ممتاز شیریں (میگھ ملہار) نے چند عمدہ علامتی افسانے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر پیش کیے تھے۔
علامت، سچے فنکار کے باطن سے پورے تخلیقی ہیجان کے ساتھ اُمنڈتی ہے اور اپنے انوکھے پن سے بے رنگ بیانیہ اور معمولی صورت واقعہ میں معنی کے نئے ابعاد روشن کر دیتی ہے۔ کانٹ نے علامت کو ’’ترجمانی خیال‘‘ قرار دیا۔ علامت، مرئی کے اندھیروں کو غیر مرئی کے اجالوں سے اور غیر مرئی کی دھندلاہٹوں کو مرئی روشنیوں سے یوں منور کرتی ہے کہ ہمارے سامنے حقیقت کے نئے اور انوکھے زاویے نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ڈبلیوبی نے مسلسل ناقابل تعریف علامت نگاری کو اسلوب کا جزو قرار دیا ہے۔ چناں چہ علامت منزل کے راستے کو خوبصورت اور معنی آفریں بنانے کا وسیلہ ہے اور ہر بڑا فنکار اسے اپنے ظرف اور ضرورت کے مطابق کام میں لاتا ہے اور قلب و روح میں پوشیدہ اقدار اور روایات کے صدیوں پرانے خزینے کو علامتوں کی مدد سے سطح پر لے آتا ہے۔
حالیہ دور میں کہانی کی بازیافت ہوئی ہے اورٹھوس باماجرا افسانہ کثرت سے لکھا جانے لگا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ تجریدی اور علامتی افسانے کے فنکار چوں کہ اپنے ساتھ اپنے نقاد بھی لائے تھے، اس لیے اس قسم کے افسانے کو متعارف کرانے، فروغ دینے اور مستحکم کرنے کی کوشش وسیع پیمانے پر ہوئی جس سے حقیقی افسانے کے ارتقا کا قدم قدرے رُک گیا تھا۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ افسانہ نگاروں کی ایک خاصی بڑی تعداد نے علامت اور تجدید نگاروں کے ساتھ ساتھ کنکریٹ افسانہ لکھنے کی کاوش کی اور حقیقت نگاری کے دروازے کو کسی زمانے میں بھی کلیتاً بند نہیں ہونے دیا۔ چناں چہ گذشتہ تین دہائیوں میں جو افسانہ نگار سامنے آئے، اُن کی مجموعی تعداد شاید علامتی اور تجریدی افسانہ نگاروں سے زیادہ ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے شعوری طور پر ترقی پسند طبقے سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن انسان دوستی کا جذبہ ابھارنے سے گریز نہیں کیا اور انسان کو زندگی کے گھمسان میں موجود رہنے اور بادِ حوادث کے تھپیڑے برداشت کرنے کی قوت عطا کی۔ کردار کے مثبت پہلوؤں کی تلاش شروع ہوئی، تو بہت سے منفی گوشے بھی سطح پر آ گئے۔
جدید علامتی افسانے کا آغاز جوگندرپال، انتظار حسین، قرۃ العین حیدر، غیاث احمد گدّی، سرپندر پرکاش، انور سجاد اور خالدہ حسین کی معرفت ہوا۔ اس حوالے سے انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر سب سے نمایاں ہیں۔ اردو افسانے نے داستان کے بطن سے جنم لیا۔ اولین افسانہ نگاروں کی تخلیقات اس کی شاہد ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اردوافسانہ مشرقی سپلائی لائن سے کٹتا گیا۔ داستان کے حوالے سے علامتی طریق کار کا تجربہ بھی ابتدا ہی میں ہوا لیکن اس کی ترویج ممکن نہ ہو سکی۔
جدید علامتی افسانے کی تحریک کو اس وقت مزید فروغ ہوا، جب پاکستان میں آمرانہ حکومتوں میں حقیقت پسندانہ انداز سے اور کھل کر بات کہنے پر قدغن تھی۔ سو پاکستانی افسانہ نگاروں نے علامتوں، استعاروں اور اشاروں کنایوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا اور بھرپور طریقے اور سلیقے سے نہ صرف معاشرے میں موجود سیاسی جبر، گھٹن کو علامتی اور استعاراتی انداز میں پیش کیا بلکہ اس جبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل، ذات کے اکیلے پن اور رشتوں کی توڑ پھوڑ کو بھی اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ جدیدیت اور علامت نگاری کی اس تحریک نے اردو ادب کے قارئین کو بہت سے نئے اور اہم افسانہ نگاروں سے روشناس کرایا۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔