اوگئی، پختونوں کا اک بھولا بسرا زیور

پختو زبان کے لوک ادب یعنی فوکلور میں صنف ٹپہ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔اولسی ادب کی یہ صنف زیریں، بالائی اور جنوبی پختونخوا کے پختون علاقوں میں چار ناموں ٹپہ، مصرعہ، لنڈیٔ اور ٹکئی یا ٹیکئی سے پہچانی جاتی ہے۔ صنف ٹپہ دو مصرعوں پر مشتمل مکمل بیت ہوتی ہے۔ اس کا پہلا مصرعہ نو بحروں پر مشتمل چھوٹا سا ہوتا ہے جبکہ دوسرا مصرعہ قدرے لمبا اور ٹھیک تیرہ بحروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس ایک بیت میں ایک مکمل مضمون بیان ہوا ہوتا ہے۔ یہ صنف اپنی جامعیت، خوبصورتی اور سادگی کی وجہ سے پورے پختونخوا میں زن و مرد، خواندہ و ناخواندہ، شہری و دیہاتی سب کی پسندیدہ ہے۔
ٹپہ جس کو پختو زبان کی لوک شاعری کی ہزاروں سال پرانی صنف مانا جاتا ہے، گویا پختون قوم کی زندگی کے ہر رُخ کی کھلی کتاب ہے۔ پختون قوم کی نشست و برخاست، غمی خوشی، رسم و رواج، اس قوم کی نفسیات، عقائد اور نظریات الغرض زندگی کے ساتھ جو بھی باتیں نتھی ہیں، ٹپہ نے وسعت دامنی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔ ٹپہ نے پختون قوم کے زمانوں اور پیڑو کی تاریخ امانتاً سنبھال رکھی ہے۔ ٹپہ میں کئی قسم کا زیور ذکر ہوا ہے جس کی مدد سے ایک پختون خاتون اپنا بناؤ سنگھار کیا کرتی تھی۔ ان میں پیزوان، چارگل، اوگئی، شیشتونہ، چغاول یا جغاول، ھیکل، امیل، گوتئی، ٹیکہ، جومر، بازوبند، باوؤ یا باھو اور بایشئی قابل ذکر ہیں۔
د محبوبہ بایشئی رغیگی
ٹول زرگران ئی پہ بیگار نیولی دینہ
بنگڑی، تعویز، میخکے، پاول یا روپئی، گل میخ، ڈیڈے، لختئی، پیشئی (جسے لڑکی بالوں میں ’’کلف‘‘ کی جگہ رکھتی تھی)، پانزیب، زنزیر، پیکڑے اور اس قبیل کا دیگر زیور بھی تھا۔ ذکر شدہ زیورات میں ایک ’’اوگئی‘‘ نامی زیور بھی تھا۔اوگئی بہت پرانا زیور ہے جسے زیریں، بالائی اور جنوبی پختونخوا کی خواتین گلے کی زینت بناتی تھیں۔ اوگئی گلے کی خوبصورتی بڑھانے کے لئے استعمال ہونے والا زیور ہے جس کا استعمال اب تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ پختون قوم کی ثقافت کی یہ نشانی جو ایک زمانے سے چلتی آ رہی ہے، اب نئی تہذیب اور صنعتی ترقی کے طوفان میں معدوم ہونے والی ہے۔
یہ زیور جسے خواتین، چھوٹی لڑکیاں اور بڑی عمر کی خواتین گلے کی زینت بناتی تھیں، اس کا ذکر ٹپہ میں عاشق کے منھ سے ہرا نداز میں ہوا ہے۔ اوگئی جو چاندی یا گلٹ کا بنا ہوا زیور ہوتا تھا، ہر علاقہ کا صراف اسے ہر قسم اور ہر شکل کی بناتا تھا۔ ان اقسام سے صراف کے فن اور ہنر کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا۔ اس حوالہ سے تلاش بسیار کے بعد بتیس ٹپے ایسے ہاتھ آئے جن میں اوگئی کا ذکر ہوا ہے۔ کچھ ٹپے ایسے ہیں جن میں اس کی اقسام بیان ہوئی ہیں۔ اوگئی کی ایسی اقسام بھی ہیں جن کا ذکر ٹپہ میں نہیں ہوا ہے لیکن وہ موجود ہیں۔ باالفاظ دیگر ایسے ٹپے ہوں گے بھی مگر کم از کم میرے ہاتھ نہیں آئے ہوں گے۔ شائد اس لئے کہ میں نے زیادہ تر تکیہ کتابوں پہ کیا ہے۔ ایسے ٹپے عام معاشرتی زندگی یا پھر کتابوں میں بھی ہوں گے، لیکن تمام کتابوں تک میری رسائی نہیں ہوئی ہوگی۔
اوگئی کی بناؤٹ اور مختلف قسموں کے حوالہ سے پروفیسر (ر) محمد نواز طائر صاحب اپنی کتاب ’’ٹپہ اؤ ژوند‘‘ کے صفحہ نمبر اٹھانوے پر موصوف عزیز سہیل کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’اوگئی کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک رسی کی طرح بل کھاتی ہوئی اور اندر سے خالی ہوتی ہے، دوسری قسم بھری ہوئی مضبوط اور تیسری گول اور تہہ در تہہ قسم کی ہوتی ہے مگر ان سب کے درمیان فرق یہ ہے کہ اوگئی کے بالکل درمیان میں ایک پھول لگا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی ایک اور قسم ’’شتئی اوگئی‘‘ کہلاتی ہے جو چاند کی طرح ہوتی ہے۔
اس حوالہ سے میں نے کافی کوشش کی کہ کوئی تحریری مواد ہاتھ آئے لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی، آخرِکارشانگلہ، مدین، بحرین، خوازہ خیلہ، شاہ ڈیریٔ، دیولئی، بونیر اور مینگورہ شہر کی صراف اور ہینڈی کرافٹس کی دکانوں کو چھان مارا اور جو مواد ہاتھ آیا، تواس کے بعد اس حوالہ سے بڑی عمر کے صرافوں سے معلومات حاصل کیں۔ اب میں ان معلومات اور ان تمام ٹپوں پر تکیہ کرنے جا رہا ہوں جو دورانِ مطالعہ ہاتھ آئے تھے یا میں نے کسی کے منھ سے سنے تھے۔
اوگئی جو لڑکیوں کے گلے کا خوبصورت زیور تھا، پورے پختونخوا میں اسی ایک نام سے پہچانا جاتا ہے، لیکن بحرین کے توروال (قبیلہ) اسے اپنی زبان میں ’’گئی‘‘ کہتے ہیں۔ اوگئی (زیور) دور سے ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے ماہِ نو۔ لیکن ان میں ایسا اوگئی بھی ہے جیسے ’’ڈال‘‘ (اردو میں اس لفظ کو ڈھال لکھا جاتا ہے،مترجم)۔ اوگئی رسی کی طرح بل کھاتا ہوا بڑی مہارت کے ساتھ بنا ہوا زیور ہے۔ اوگئی کو یہی بل دینے والاعمل سنار بڑی مہارت کے ساتھ انجام دیتا ہے اور اس کی تمام خوبصورتی بھی اس عمل کی وجہ سے ہے۔ یوں تو اوگئی کی کئی اقسام ہیں لیکن جو ہاتھ آئی ہیں، اس کی روشنی میں یا جن کا کسی لڑکے یا لڑکی کے منھ سے ٹپہ میں ذکر ہوا ہے، وہ حاضر خدمت ہیں۔
(کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے مترجم تفصیل میں جانے سے معذور ہے، یہاں ان اقسام کے صرف نام رقم کئے جا رہے ہیں۔ تفصیل کے لئے شاہ وزیر خان خاکی کی تحقیقی کاوش ’’پہ ٹپہ کی مادی فوکلور‘‘ صفحہ ترپن تا تریسٹھ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے)
1:۔ ’’چارک اوگئی‘‘ جس کی ذیلی اقسام میں ’’گنگرو والہ‘‘ اور ’’پترو والہ‘‘ اوگئی کا ذکر کیا گیا ہے۔ (مؤخرالذکر زیور کے حوالہ سے کتاب کے صفحہ پچپن میں ایک ٹپہ کچھ یوں رقم ہے)
مور ئی پہ کلی شوملی غواڑی
لور ئی چارک اوگئی پہ غاڑہ گرزوینہ
2:۔ ’’شتئی اوگئی‘‘۔ (مذکورہ زیور کے حوالہ کتاب کے صفحہ چھپن سے ایک ٹپہ ملاحظہ ہو)
یار می د غشو جنگ لہ لاڑو
شتئی اوگئی ورلہ د ڈال پہ زائے لیگمہ
3:۔ ’’دری بندیٔ اوگئی‘‘۔
4:۔ ’’ڈڈہ اوگئی‘‘ جس کی ذیلی اقسام میں ’’دَ گل ڈڈہ‘‘ اور ’’دَ مزی ڈڈہ‘‘ شامل ہے۔ (اس حوالہ سے خاکیؔ اپنی کتاب کے صفحہ ستاون اور اٹھاون پر ٹپے کچھ انداز میں رقم کرتے ہیں، مترجم)
اوگئی لہ ڈڈ ورکڑہ زرگرہ
یار می نوکر دے خزانے بہ پہ کی گدمہ
ڈڈہ اوگئی غندل ئی غاڑہ
زہ د دلال نہ پہ نیستئی راغلی یمہ
ڈڈہ اوگئی ڈڈہ دی غاڑہ
ما پہ کی نغاڑہ مسافر راغلے یمہ
5:۔ ’’کوٹلی اوگئی‘‘ جس کی ذیلی اقسام میں ’’دوؤ مزو والہ‘‘ اور ’’دریو مزو والہ‘‘ اوگئی شامل ہے۔
اوگئی کوٹلی کڑہ زرگرہ
زہ دَ سلورو ورونڑو خور یم قدر منہ
6:۔ ’’سپرنگئی اوگئی۔‘‘
7:۔ ’’سادہ اوگئی‘‘۔
(کتاب کے صفحہ ساٹھ، اکسٹھ، باسٹھ اور تریسٹھ پر خاکیؔ نے وہ تمام ٹپے رقم کئے ہیں، جو مذکورہ زیور کے حوالہ سے ان کے ہاتھ آئے ہیں۔ چوں کہ کالم کی تنگ دامنی آڑے آ رہی ہے، اس لئے مترجم ان میں سے اپنی پسند کی چند مثالوں کا حوالہ دے گا۔ باقی کے لئے اگر کتاب کا مطالعہ کیا جائے، تو از چہ بہتر؟، مترجم)
زہ بہ تری سنگہ نہ جاریگم
چی اوگئی زنے تہ اڑم کڑی وخاندینہ
اوگئی چی ولویگی کوشیر شی
زما زڑگیہ ولی نہ خوری کوشیرونہ
اختر پہ ٹوقو ٹوقو راغے
نہ می اوگئی شتہ نہ د غاڑی تعویزونہ
تور لونگین پہ ژڑا راغے
سپینہ اوگئی پہ سینہ زائے نہ راکوینہ
ٹیک پہ تندی پیزوان پہ شنڈو
اوگئی پہ غاڑہ یارہ لا مزہ کوینہ
سپینہ اوگئی سپینہ ئی غاڑہ
دا سپینے دوانڑہ لیچے خلق قتلوینہ
(نوٹ:۔ درجِ بالا تحریر شاہ وزیر خان خاکیؔ کی کتاب ’’پہ ٹپہ کی مادی فوکلور‘‘ کی ایک تحریر ’’اوگئی‘‘ کا من و عن ترجمہ ہے، جس میں جہانزیب کالج کے پختو سانگہ کے پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ نے مترجم کی معاونت فرمائی)۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔