میرے ناناجی حاجی غلام احد (ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر) کے بقول حاجی عبدالقیوم المعروف قیوم بابو صیب نے 2 فروری 1942ء کو نیروز (اصل نام غالباً نو روز ہے) کے ہاں آنکھ کھولی۔ ابھی قیوم بابو صیب عہدِ طفولیت میں تھے کہ ان کے والدِ بزرگوار انہیں داغِ مفارقت دے گئے۔ والدِ بزرگوار کی وفات کے بعد ان کی پرورش کا بیڑا ان کے تایا ’’پیر داد‘‘ نے اٹھایاجو کہ پیشۂ معلمی سے وابستہ تھے۔
قیوم بابو صیب کے حوالہ سے میری ماں کہتی ہیں کہ انہوں نے بچپن میں کافی تکالیف اُٹھائیں۔ حتی کہ جس گھر میں انہوں نے پرورش پائی، وہاں تایا پیر داد کے علاوہ کسی نے انہیں کوئی خاص وقعت نہیں دی۔ پیر داد ایک خدا ترس انسان تھے۔ انہیں دھڑکا لگا رہتا تھا کہ میری غیر موجودگی میں میرا بھتیجا گھر میں کھاتا پیتا بھی ہوگا کہ نہیں۔ اس لیے انہوں نے ’’میرجو کاکا‘‘ سے کہا تھا کہ قیوم کو کباب کھلایا کریں اور جتنے پیسے بنتے ہیں، انہیں کھاتے میں لکھ کر بعد میں مجھ سے وصول کیا کریں۔ والد کی جلد رحلت، معاشرے کے کھردرے رویوں اور تایا جان کی پرورش نے بالآخر بابو صیب مرحوم کو ایک ایسا انسان بننے میں مدد دی جس نے آگے دکھی انسانیت کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان کی اپنی زندگی محرومیوں سے عبارت تھی، اس لیے بے آسرا لوگوں کا آسرا بنے۔ پیر داد کی شرافت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ایک یتیم کی جائیداد بالکل اپنے جگر گوشوں کی طرح سنبھال کر رکھی۔
نانا جی نے اپنی یادوں کی پوٹلی کھولتے ہوئے بابو صیب کے حوالے سے کہا کہ ’’میٹرک میں کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے نوکری کے لیے درخواست دی اور ایک مدرّس کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بابو صیب کو ’’گوکن‘‘ (بونیر) کے علاقہ میں نونہالانِ وطن کی پرورش کی ذمہ داری سونپی گئی، مگر شعبۂ درس و تدریس کو اپنی طبیعت کے موافق نہ پاکر جلد ہی اسے چھوڑ بیٹھے۔ تقریباً ایک سال بعد انہوں نے شعبۂ صحت کو اپنا یا اور باقاعدہ طور پر سنٹرل اسپتال سیدو شریف میں ملک و قوم کی خدمت کا بیڑا اٹھایا۔ چوں کہ صحت کا شعبہ طبیعت کے موافق تھا، خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے، اس لیے پروردگار نے ان کے ہاتھوں میں شفا رکھ دی۔ اسے ہم بابو صیب کی خوش بختی پر محمول کرسکتے ہیں کہ آپ کو ڈاکٹر غلام محمد اور ڈاکٹر روشن ہلال جیسے مسیحاؤں کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اپنی ڈیوٹی کے ساتھ بھرپور انصاف کیا کرتے تھے۔ چوں کہ مرفہ الحال تھے، کوئی آٹھ پیسے زرعی زمین کے مالک تھے، اس لیے ایمان داری کے ساتھ دُکھی انسانیت کی خدمت میں جتے رہتے اور جو ملتا اس پر خدا کا شکر ادا کرکے زندگی گزارتے۔‘‘
بابو صیب کے درس و تدریس کے عمل کو چھوڑنے کے حوالہ سے ان کے پوتے نورِ الٰہی کہتے ہیں: ’’ایک دفعہ دادا جی کے تایا موصوف پیرداد سخت بیمار پڑ گئے۔ بابو صیب نے ان کے علاج کے لیے کشٹ بھوگے۔ تمام تر تکالیف اٹھانے کے بعد انہوں نے بالآخر فیصلہ کیا کہ کیوں نہ شعبۂ صحت میں قسمت آزمائی کی جائے، یوں کم از کم تایا جان کی طرح کسی اور کو تو تکلیف کے عمل سے گزرنا نہیں پڑے گا۔ نتیجتاً انہوں نے شعبۂ تعلیم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ ‘‘
ایک بات جو بابو صیب کے حوالہ سے نانا جی نے بتائی، اُس پر میری ماں نے بھی مہرِ تصدیق ثبت کیا کہ ’’بابو صیب اسپتال کی ڈیوٹی کے بعد اپنا بٹوا نما فرسٹ ایڈ باکس اٹھا کر گلی گلی کوچہ کوچہ پھرتے اور ہر در کھٹکھٹا کر پوچھتے کہ کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ آس پاس کے محلوں (محلہ بنجاریان، وزیر مال، امان اللہ خان وغیرہ) کے لیے بابو صیب مسیحا کا درجہ رکھتے تھے۔ ذکرشدہ محلوں میں بخار، نزلہ اور سر درد جیسی چھوٹی موٹی بیماریوں میں مبتلا لوگ بابو صیب کی راہ تکتے اور اپنی تکلیف آپ کے گوش گزار کرکے گویا بدلے میں صحت پاتے۔ جلد ہی آپ کی شرافت کی وجہ سے لوگ آپ کو اپنے خاندان کا فرد سمجھنے لگے۔ پھر جب رفتہ رفتہ آس پاس کے علاقوں میں آپ کی مسیحائی کا شُہرہ ہوا، تو آپ نے محلہ وزیر مال میں ایک چھوٹا سا پرائیویٹ کلینک کھولا اور دلجمعی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اپنی شرافت، بے لوث خدمت اور کارِ مسیحائی کی وجہ سے ’’ہُم خرما و ہُم ثواب‘‘ کے مصداق نیکیوں اور محبتوں کے ساتھ ساتھ دولت بھی کماتے رہے۔ محض دو عشروں میں آپ نے اپنے جگر گوشوں کے لیے نیک نامی کے ساتھ ساتھ اتنا کچھ کمایا کہ جو آپ کی کئی پشتوں کے لیے کافی و شافی ہے۔ ذکر شدہ کلینک آج بھی اسی جگہ پر قائم ہے۔ پڑوس میں آپ کا گھر بھی ہے، جہاں آپ تادمِ آخر زندگی کی قید میں رہے۔‘‘
ناناجی کے بقول: ’’جب سے میں انہیں جانتا ہوں، میں نے کبھی کسی کو اُن سے بددِل ہوتے نہیں دیکھا، مریض علاج سے زیادہ ان کے رویے سے صحت یاب ہوتے۔ کلینک میں آنے والے غریب مریضوں کو بلامعاوضہ ادویہ (جنہیں عرفِ عام میں سیمپل کہتے ہیں) دیتے۔ وہ مریض جن کے پاس سوئی لگوانے کے بھی پیسے نہ ہوتے، انہیں مفت لگاتے۔ کبھی کسی کے بلامعاوضہ علاج پر ناک بھوں نہیں چڑھائی۔‘‘
بابو صیب کے ساتھ ہمارا رشتہ بھی تھا۔ وہ میرے ہردلعزیز ماموں افتخار حسین میر خیل کے سسر تھے۔ بقولِ نانا جی: ’’قسم اُٹھا کے کہتا ہوں کہ پچھلے دو عشروں میں انہوں نے کبھی اپنی بیٹی کے حوالہ سے ہم سے شکا یت تک نہیں کی۔ حالانکہ گھروں میں تو تو میں میں ہو ہی جاتی ہے، مگر کبھی ان کی طرف سے کوئی شکایت سننے کو نہیں ملی۔‘‘
بابو صیب کے دو صاحبزادے (فضلِ الٰہی المعروف ’’ودان‘‘ اور محبوبِ الٰہی) جب کہ پانچ صاحبزادیاں ہیں۔ اس کے علاوہ تین صاحبزادیاں کم عمری ہی میں سدھار چکی ہیں۔ صاحبزادے بھی آپ کی طرح دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں جب کہ صاحبزادیوں کو پڑھا کر انہیں شعبۂ درس و تدریس کی راہ دکھائی۔
بابو صیب کی زندگی کے اس گوشے کی طرف کم ہی کسی کی نظر جاتی ہوگی کہ آپ کے ذاتی کلینک میں آپ کا ہاتھ بٹانے والے آج اپنے اپنے علاقہ میں لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اپنے صاحبزادوں کے علاوہ ہمارے ماموں افتخار حسین میر خیل، پورن کے (مرحوم) فضل کریم، دلاور اور نجانے اور کتنے نوجوان ایسے ہیں جو بابو صیب کے شاگردِ خاص رہ کر آج نہ صرف عزت کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ دکھی انسانیت کی خدمت کرکے بابو صیب کے لیے صدقۂ جاریہ کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔
بابو صیب کے ایک نواسے قاضی ارشد فرید کے بقول: ’’ناناجی کی وفات کے بعد غم رازی کے طور پر آئے ہوئے ایک سکھ نے رونکھی صورت بناتے ہوئے کہا کہ بابو صیب مرحوم ہماری برادری کا بطورِ خاص خیال رکھتے تھے۔ جیسے ہی کلینک کھولتے، تو مریضوں پر نظر دوڑانے کے بعد کہتے کہ بھئی، سکھ برادری والے آگے آئیں۔‘‘
بابو صیب کے پوتے نورِ الٰہی نے ایک عجیب واقعہ سنایا، جو اُن کے بقول اُنہیں مرحوم بابو صیب نے زبانی سنایا تھا۔ واقعہ من و عن نذرِ قارئین ہے: ’’یہ اُس وقت کی کہانی ہے جب بابو صیب کی مسیحائی کی دھاک مینگورہ شہر میں بیٹھ چکی تھی۔ وہ نور کے تڑکے اٹھتے اور شام گئے دکھی انسانیت کی خدمت میں جتے رہتے۔ اکثر کلینک بند کرنے کے بعد بھی اگر کسی کو بابو صیب کی خدمات کی ضرورت پڑ جاتی، تو وہ آدھی رات کو بھی نکل آتے اور مریض کو سُوئی لگا کر واپس اپنی آرامگاہ کا رُخ کرتے۔ ایسی ہی ایک رات کو بابو صیب اپنی آرامگاہ میں محوِ خواب تھے کہ در پر کسی نے دستک دی۔ بابو صیب اٹھے اور احتیاطاً اپنے ساتھ فرسٹ ایڈ باکس بھی اٹھا لیا۔ دروازہ کھولا، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپے بابو صیب کے سامنے کھڑا ہے۔ بابو صیب نے ان سے پوچھا، جی! آپ کون؟ اُس شخص نے جیسے ہی بابو صیب کی آواز سنی اور 60 واٹ کے پرانے برقی قمقمے کی ہلکی سی زرد روشنی میں آپ کے چہرے پر نظر دوڑائی، تو بنا کچھ کہے واپس لوٹا۔ دو تین دن بعد وہی آدمی بابو صیب کے پاس کلینک آیا، اور ساتھ ہی اُس رات والی اپنی گستاخی پر معافی مانگنے لگا کہ اُس رات میں آپ کو لوٹنے آیا تھا، مگر جیسے ہی آپ کی کانوں میں رَس گھولتی آواز سُنی اور پھر آپ کا چہرہ دیکھا، تو ارادہ ترک کیا۔ بابو صیب نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ کے اس رحم کی کوئی خاص وجہ؟ وہ شخص جواباً کہنے لگا کہ ایک دن میری ماں کی حالت نازک تھی۔ وہ وارڈ میں بے سُدھ پڑی تھی۔ ڈاکٹر تو دور ایک عام کمپاؤنڈر بھی اُس روز ناک پر مکھی بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ اتنے میں آپ دور سے آتے دکھائی دیے۔ میں دوڑ کر آپ کے پاس آیا اور ہاتھ جوڑ کر اپنی ماں کی زندگی کی بھیک آپ سے مانگی۔ آپ نے نہ صرف اُس وقت مجھے دلاسا دیا بلکہ میرے ساتھ بنفسِ نفیس چل کر ماں کا معائنہ کیا۔ اُسے طاقت کی سوئی لگائی اور کچھ ادویہ بھی دیں۔ خدا کی کرنی، اُسی علاج سے میری ماں جی اٹھی تھیں۔‘‘
قارئین کرام! بابو صیب نہ صرف میرے بلکہ میرے پورے خاندان کے محسن ہیں۔ وہ ہماری مفلوک الحالی سے آگاہ تھے، اس لیے انہوں نے پورے پچیس سال ہمارا بلامعاوضہ علاج کیا۔
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔