(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ایک مسافر بس بونیر سے آ رہی تھی اور اچانک میاں کوٹے، کڑاکڑ کے قریب کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے رُک گئی۔ مسافر بس سے اُتر گئے اور ٹولیوں میں کھڑے ہو گئے، جب کہ ڈرائیور اور اس کا مددگار خرابی کو دور کرنے میں مصروف تھے۔ ان میں سے دو مسافروں کے درمیان کسی معاملے پر سخت تکرار شروع ہوگئی۔ اچانک ان میں سے ایک نے پستول نکالی اور دوسرے پر فائر کر دیا۔ اس کا نشانہ چوک گیا اور گولی ایک دوسرے مسافر کو لگ گئی۔ وہ نیچے گرگیا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
قاتل بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا کہ قریب ہی رہنے والے ایک صوبیدا میجر نے اس پر حملہ کیا اور اپنے گاؤں والوں کی مدد سے اسے قابو کرلیا۔ اس نے اسے اپنے ’’حجرے‘‘ میں لے جا کر سٹیٹ حکومت کی جانب سے لگے ہوئے ٹیلی فون سے بری کوٹ کے تحصیل دار اور سوات زیریں کے ’’مشیر‘‘ کو اطلاع کر دی۔ کچھ ہی دیر میں غالیگی فورٹ کی پولیس پہنچ گئی اور قاتل کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اسے سیدو شریف لے جایا گیا۔
اگلے دن اسے سوات کے حکم ران، میانگل جہانزیب کے سامنے پیش کیا گیا۔ تمام تفصیلات اور بس کے ڈرائیور اور مسافروں کی گواہی سننے کے بعد اور قاضیوں سے مشورہ کرنے کے بعد، والی صاحب نے اسے سزائے موت کا حکم دیا۔ رات کے لیے اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔
اگلی صبح، مقتول کے بھائی ’’قصاص‘‘ کے قوانین کے مطابق قاتل کو مارنے کے لیے پہنچ گیا۔ جب قاتل کو جیل سے باہر نکالا گیا، تاکہ اسے مارنے کے لیے سیدو شریف کی مرکزی جیل کے قریب ایک گہری کھائی میں لے جایا جاسکے، تو وہ بہت خوف زدہ تھا۔ وہ بہ یک وقت ’’کلمہ‘‘ بھی پڑھ رہا تھا اور پشتو گیت بھی گا رہا تھا۔ چوں کہ وہ ایک شاعر تھا اور اکثر 12 دسمبر یا 5 جون کی شام کو ہونے والے ’’مشاعروں‘‘ میں حصہ لیتا تھا، اسی لیے اسے امید تھی کہ حکم ران موت کی سزا میں نرمی کریں گے۔
بہ ہر حال، اسے متعین مقام پر لے جایا گیا اور مقتول کے بھائی نے جیلر کی نشان دہی کے مطابق اسے بائیں کندھے پر گولی مار دی۔ وہ منھ کے بل گر پڑا۔ قانونی طور پر، ڈاکٹر نے جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، اس کی نبض اور دل کی دھڑکن کو چیک کیا۔ دس منٹ بعد پھر معائنہ کیا گیا، تو وہ اب بھی زندہ تھا۔ ڈاکٹر نے مقتول کے بھائی کو سینے پر ایک اور گولی مارنے کا اشارہ دیا۔ قاتل چلایا: ’’مجھے مت مارو، مَیں ’شہید‘ ہوں۔‘‘ عدالت کے افسر نے دوسرے شاٹ کو فائر کرنے کا حکم دیا۔ اس گولی کے ساتھ اس کا جسم جھٹکا کھا گیا اور پھر وہ خاموش ہوگیا۔ جب تک اس کے اپنے اہلِ خانہ نہیں پہنچے، اس کی لاش سڑک کے کنارے ایک بڑے شیشم کے درخت کے نیچے، جہاں اب سیدو میڈیکل کالج موجود ہے، ایک چھوٹی چارپائی پر پڑی رہی۔ اس کے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ جہاں جہاں گولیاں لگی تھیں، وہاں سے خون بہہ رہا تھا۔ دن کے آخر میں، اس کے گھر والے پہنچ گئے اور اسے دفن کرنے کے لیے کڑپہ، بونیر لے گئے۔
پیارے قارئین، اس شاعر کا نام امیر حیدر بونیری تھا۔ جس صوبیدا میجر نے صورتِ حال کو سنبھالا، وہ میاں مصطفی تھے۔ انھیں عام طور پر ’’کڑاکڑ پاچا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
