پاکستانی سیاست کا اجمالی جائزہ

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

یہ بات صحیح ہے کہ تاریخی طور پر ہمارا تعلق جس خطۂ ارض سے ہے، وہاں پر رواداری، تہذیب اور برداشت کا عنصر تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم میں بلا کی جذباتیت ہے اور ہمارا یہ رویہ مذہب، معاشرت اور داخلی و نجی معاملات میں بہت زیادہ ہے، لیکن اگر ہم اس کا گہرائی سے جائزہ لیں، تو اس کی جڑیں سیاست میں نظر آتی ہیں۔
ملک کے اندر شاید پہلی بار ’’ون مین، ون ووٹ‘‘ والی جمہوریت سنہ 70ء کے انتخابات سے شروع ہوئی اور پہلی بار سیاسی جماعتوں نے اس میں حصہ لیا۔ یہ شاید تاریخی طور پر پہلے اور آخری انتخابات تھے کہ جو نظریاتی بنیادوں پر لڑے گئے۔ اس میں تین بڑی قوتیں نبرد آزما تھیں۔ عوامی لیگ کا منشور چھے نِکات پر تھا کہ جس میں صوبائی خود مختاری تقریباً کنفیڈریشن سے بھی زیادہ تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کا سلوگن لے کر آئی تھی، جب کہ جماعت اسلامی، ملک میں ’’اسلام‘‘ کے نعرے کے ساتھ پیش ہوئی۔ گو کہ ان انتخابات کے نتائج کے بعد صورتِ حال خراب ہوئی، جو ملک کو دو لخت کرگئی، لیکن آج یہ ہمارا موضوع نہیں۔ بہ ہرحال وہ شاید واحد انتخابات تھے، جہاں منشور کو اہمیت دی گئی اور تنقید پالیسیوں پر ہوئی۔
اُن انتخابات میں ذاتی کردار کُشی، شخصی رقیق حملے یا فتوے بازی بہت کم ہوئی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سیاسی بلوغت کا مزید مظاہرہ کرتے اور آیندہ کے لیے ہماری سیاست میں تہذیب اور رکھ رکھاو کو مزید اہمیت دی جاتی، لیکن سب اس کے اُلٹ ہوا اور سنہ 77ء کے انتخابات میں ہم نے اس منفی سفر کا آغاز کر دیا۔ پہلی دفعہ ملک کے منتخب وزیرِ اعظم کو غیر مسلم اور غدار کہا گیا۔ اُن کو کوہالہ پُل پر پھانسی دینے کا اعلان ہوا اور جواب میں پیپلز پارٹی جو کہ کافی ترقی پسند اور لبرل اقدار کی مالک تھی، نے بھی ری ایکشن دینا شروع کر دیا۔ اُس دور کے حزبِ اختلاف کے راہ نماؤں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ بھٹو صاحب وزیرِاعظم ہونے کے باجود حزبِ اختلاف کے راہ نماؤں پر فقرے چست کرتے۔ اُنھیں دنوں اُنھوں نے ولی خان کو ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ اور اصغر خان کو ’’آلو خان‘‘ کے القابات دیے…… لیکن پھر بھی یہ مہم بہت حد تک شستہ رہی۔
دراصل سیاست میں اصل گند کی بنیاد سنہ 1988ء کے انتخابات میں رکھی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ تب کی پیپلز پارٹی جو کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں تھی اور اُس وقت مقبول ترین جماعت تھی، کے مقابل کوئی سکہ بند سیاسی قوت نہ تھی، بل کہ ان کے مخالفین کی اکثریت سنہ 85ء کے غیر جماعتی انتخابات سے آنے والے لوگ تھے کہ جن کی نہ کوئی سیاسی میراث تھی، نہ اقدار اور نہ تجربہ۔ اکثریت سیٹھوں اور مل ملکان کی تھی، جو محض پیسے کے زور پر سیاست میں کام یاب تھے۔ اس کی وجہ سے جہاں ہماری قومی سیاست کرپشن کا شکار ہوئی، وہاں سیاسی رویہ بالکل تبدیل ہوگیا۔ چوں کہ یہ لوگ تب کی اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمے داران ہی اُن کو ایک اتحاد کی شکل میں لائے تھے۔ مخالفت میں بینظیر بھٹو کی شکل میں بالکل ایک فریش چہرہ تھا کہ جن کے ساتھ بے شمار ہم دردی کی لہر تھی کہ جو کچھ ان کے ساتھ گذشتہ ’’مارشل لا انتظامیہ‘‘ نے ظلم و جبر کا رویہ رکھا تھا۔ اُن کے والد کو غیر فطری موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا اور اُن کی ذات اور کارکنان پر مظالم ڈھائے گئے تھے۔ بی بی اُس وقت ایک نوجوان خاتون تھیں۔ اس وجہ سے اُن کے خلاف کردار کشی کی ہر حد کراس کی گئی۔ ان کی حب الوطنی اور دینی عقائد پر شکوک ظاہر کیا گیا۔ ساتھ ہی ان کے ذاتی کردار پر ایک شرم ناک جعلی مہم چلائی گئی۔ پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بھی کسی حد تک جواب دیا، لیکن مجموعی طور پر ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ نے ایک مکروہ اور قابلِ افسوس رویے کی بنیاد رکھ دی۔ مذکورہ رویے کو عروج بے شک سنہ 97ء کے انتخابات سے ملا، جب تحریکِ انصاف کاعنصر سیاست میں داخل ہوا۔ اب جوڑ برابر کا ہوگیا۔ کیوں کہ پی پی پی چوں کہ رویے کے اعتبار سے نسبتاً تجربہ کار تھی۔ پھر اس کا کارکن زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھا اور سب سے بڑھ کر اُن کی قائد ایک نوجوان خاتون تھی، سو وہ بہت حد تک اس معاملے سے گریز کرتے تھے……! لیکن اب اس معاملے میں ’’ن لیگ‘‘ کے مقابل تحریکِ انصاف آگئی کہ جس کے پاس تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی کھیپ تھی۔ اُن کا لیڈر ایک مقبول کھلاڑی اور سوشل ورکر اور مرد تھا۔ سو گندگی کی انتہا ہوگئی…… لیکن 2011ء اور 2012ء میں جب تحریکِ انصاف مقبول ہوگئی (یا مقبول بنائی گئی)، تو تب سیاست میں ایک نیا عنصر شامل ہوگیا۔ اور وہ عنصر تھا ’’حق و باطل کی نئی صف بندی!‘‘ یعنی تحریکِ انصاف کے کارکنان نے اَب سیاست کو عقیدہ کی جنگ بنا دیا۔ یہ بیانیہ نہ رہا کہ ’’ہم مخالفین کے منشور/ پالیسی‘‘ کے مخالف ہیں، یا چلو مخالف کے کردار سے مطمئن نہیں، بل کہ یک دم سیاسی مخالفین کو ذاتی دشمن قرار دے دیا گیا۔ ایک طرح سے حق و باطل کی لکیر کھینچ دی گئی۔ پہلی بار مخالفین کو ’’یزید‘‘ اور ’’نمرود‘‘ سے تشبیہ دینے کی شروعات کی گئی۔ سیاسی قائد کو ’’مرشد‘‘ کا خطاب دینا شروع کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا کو اس سلسلے میں اندھا دندھ استعمال کیا گیا۔ اپنے خونی اور سگے رشتہ داروں کو دشمن فرض کرلیا گیا، محض سیاسی سوچ کے اختلاف کی وجہ سے۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس رویے میں کمی کے بہ جائے شدت آتی گئی اور اگر ہم یہ کہیں کہ اِس وقت یہ شدت انتہا پر ہے، تو غلط نہ ہوگا۔
اب اس کی ایک تازہ مثال صدرِ مملکت محترم آصف علی زرداری کی بیماری ہے۔ صدرِ مملکت عید منانے اپنے آبائی حلقہ نواب شاہ گئے تھے اور وہاں سے اُنھوں نے سابق وزیرِ اعظم اور اپنی جماعت کے بانی چیئرمین اور سسر جناب ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے سلسلے میں منعقد تقریب کے لیے گھڑی خدا بخش جانا تھا کہ اچانک ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور اُن کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں بھرتی کر لیا گیا۔ ہسپتال ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ صدر کو کورونا ہوگیا ہے، جو شاید کورونا کی نئی قسم ہے۔ اس وجہ سے صدر کی ملاقاتوں پر پابندی لگا دی گئی۔
لیکن جوں ہی یہ خبر آئی، سوشل میڈیا پر گندگی کا ایک سیلاب آگیا۔ آپ ’’فیس بُک‘‘، ’’ایکس‘‘ یا ’’ٹک ٹاک‘‘ کھولیں، ہر طرف عجیب و غریب تبصرے جاری ملیں گے۔
ویسے اس سے پہلے ہمارے تحریکِ انصاف کے ’’ٹائیگر‘‘ یہی کام سابق وزیرِ اعظم جناب نواز شریف کی زوجہ محترمہ کلثوم شریف (مرحومہ) کی بیماری کے دوران میں کرچکے۔ اس وقت کا پورا انصافی میڈیا خاص کر سوشل میڈیا مکمل شعوری کوشش سے یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا کہ کلثوم شریف کی بیماری ایک جعلی خبر ہے اور نواز شریف بیگم کی بیماری کا بہانہ کرکے کیسوں سے بچنا چاہتا ہے۔
آخر اُس بے چاری بیمار خاتون نے مر کر ان احمق اور شعور سے عاری’’لاٹ‘‘ کو یہ سمجھایا کہ مَیں واقعی مریض تھی۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ تب کم از کم کوئی توہین آمیز ریمارکس نہیں تھے، لیکن جو درگت اس دفعہ ملک کے منتخب صدر اور بلوچ سردار کی بنائی جا رہی ہے، اس سے خدا کی پناہ۔
بیگم کلثوم کے معاملے میں رائے یہ تھی کہ بیگم صاحبہ بہانہ کر رہی ہیں، لیکن آصف زرداری کے معاملے میں بیانیہ یہ گھڑا گیا کہ زرداری صاحب خدا نہ خواستہ فوت ہوچکے ہیں، لیکن اس کو راز میں رکھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ بھٹو خاندان میں شدید اختلاف ہے اور ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور پوتا، زرداری صاحب کو گڑھی خدا بخش میں دفن کرنے کی اجاذت نہیں دے رہے، جب کہ زرداری صاحب کے بچے بہ ضد ہیں کہ وہ والد کی قبر اپنی ماں کے پہلو میں ہی کریں گے۔
بات یہاں تک ہوتی، تو بھی اچھا تھا، بل کہ زرداری صاحب کو ’’مرحوم‘‘ فرض کرکے اُن کو گالیاں دی جا رہی تھیں اور ’’اظہارِ مسرت‘‘ کا منترہ چلایا جا رہا تھا۔ یہ بدبخت یہ بھی سوچنے سے قاصر تھے کہ چلو مان لیا، زرداری صاحب دنیا چھوڑ گئے ہیں اور بہ قول آپ کے اگر ان کا کوئی متنازع کردار تھا بھی، تو وہ ان کے ساتھ گیا اور معاملہ عادلِ کل اور قادرِ مطلق کے پاس پہنچ گیا۔ اب اُن کے معصوم بچوں کا تو کوئی قصور نہیں۔ یہ بے تکی باتیں ان کے بچوں کے لیے کتنی درد ناک ہوسکتی ہیں۔ آخر وہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ملک بھر میں اُن کے کروڑوں کارکن اور ووٹر ہیں۔ ان کے جذبات کیا ہوسکتے ہیں؟ ہم یہاں پی پی کے کارکنان کی تعریف ضرور کریں گے کہ اُنھوں نے اس صورتِ حال میں کسی قسم کا منفی ردِ عمل نہ دیا اور نہ جوابی وار ہی کیا…… لیکن تحریکِ انصاف کے کارکنان نے بہ ہرحال اپنی اس غیر شعرعی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی مہم کی ابتدا تو کر دی تھی۔
لیکن پھر ہوا کیا…… ایک دن صبح زرداری صاحب کی مسکراتی تصویر ریلیز کر دی گئی اور نجی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے یہ بیان دیا کہ زرداری صاحب کی جان کو ممکنہ طور پر کوئی خطرہ نہیں اور وہ جلد اپنی سیاسی و حکومتی ذمے داریاں سنبھال لیں گے۔ اس کے باجود بھی حرام ہے کہ سوشل میڈیا کے اُن دانش وروں کے کان پر جوں تک رینگی ہو، بل کہ وہ شاید نئے جذبے سے اس مکروہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ ہم یہاں اپنی سیاسی قیادت کو بالعموم اور تحریکِ انصاف کے قائدین سے بالخصوص یہ التماس کریں گے کہ وہ اس کو 100 فی صد سنجیدہ لیں اور اپنے ان نام نہاد مریدین کی سیاسی دانش کو درست کریں اور ان کی اخلاقی تربیت کریں۔ کیوں کہ ان کی ان حرکات کا تحریک انصاف کو سیاسی یا انتظامی فائدہ تو ملنے سے رہا۔ مطلب، بالفرض خدا نہ کرے اگر زرداری صاحب دنیا سے گزر ہی جاتے ہیں، تو کیا ہوجائے گا؟ ان کی جگہ پی پی پی کا کوئی اور راہ نما ادی فریال تالپور، رضا ربانی، میر باز کھیتران، راجہ پرویز اشرف وغیرہ ایوانِ صدر جا کر بہ طورِ صدرِ پاکستان ذمے داریاں سنبھال لیں گے۔ اس سے نہ تو جناب عمران خان کو کسی نے وزیرِ اعظم یا صدر بنانا ہے اور نہ خان صاحب کی آزادی زرداری صاحب کی موت سے مشروط ہے۔
اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کو کسی صورت اخلاقی اقدار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بہ ذاتِ خود انسانیت کے خلاف ہے۔ اگر آپ کے اندر ادنا درجے کی انسانیت تک نہیں، تو کل کو یہ معاشرہ اور ریاست آپ سے کیا توقع کر سکتا ہے کہ آپ کس طرح اس کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے ہیں؟ خان صاحب تو بہت فخر سے کہتے رہے کہ ’’مَیں ایک قوم بنانے کے لیے آیا ہوں۔ نفرتوں فرقوں اور لسانیت میں بٹی قوم کو ملتِ واحد بنانا چاہتا ہوں۔‘‘ تو اس رویے کے ساتھ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم ایسے عناصر کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں اور بس……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے