جوائنٹ فیملی سسٹم: روایت کی زنجیروں میں قید زندگیاں

Blogger Shafiq ul Islam

’’دینِ اسلام صرف عبادات کا نام نہیں، بل کہ مکمل طرزِ زندگی ہے۔ پانچ وقت کی نماز، روزہ اور قرآن کی تلاوت جتنی اہم ہیں، اتنے ہی اہم انسانوں کے حقوق، عدل، حسنِ سلوک، پردے اور باہمی معاملات کے احکامات بھی ہیں۔ ہم صرف اُن اعمال کو دین سمجھ بیٹھے ہیں، جو ہمیں آسان یا پسندیدہ لگتے ہیں، مگر اسلام کا کمال تب ہے، جب ہم اولاد، بہوؤں وغیرہ اور دیگر رشتے داروں کے حقوق بھی اسی اخلاص سے ادا کریں۔ جنت کا راستہ صرف عبادات سے نہیں، بل کہ حقوق العباد کی ادائی سے بھی ہم وار ہوتا ہے۔‘‘
ہمارے معاشرے میں کچھ روایات ایسی ہیں، جنھیں چیلنج کرنا جرم اور ان سے نکلنے کی خواہش گناہ تصور کی جاتی ہے۔ انھی میں ایک نظام ’’جوائنٹ فیملی سسٹم‘‘ یعنی مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ بہ ظاہر یہ نظام خلوص، قربانی، بھائی چارے اور محبت کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کی حقیقت جاننے کے لیے اس میں بسنے والے ان افراد کی خاموش چیخوں کو سننا ہوگا، جو اس روایت کے بوجھ تلے اپنی پوری زندگی کی خوشیاں، خواب اور سکون قربان کر بیٹھتے ہیں اور ذہنی مریض بن چکے ہیں اور ان کی جوانی خاک میں ملا دی گئی ہے اور ان کی قربانیوں کو فراموش کیا گیا ہے۔ خاص طور پر عورت، نوجوان شادی شدہ جوڑے اور چھوٹے بچوں کی زندگی اس نظام میں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیٹوں اور بہوؤں کے سرے سے کوئی حقوق ہی موجود نہیں۔ حالاں کہ اسلام میں سب کے حقوق موجود ہیں اور اسلام نے ہر انسان کو عزت، حدود، پردے، سکون اور ذاتی زندگی کے حقوق دیے ہیں۔ قرآنِ پاک میں سورۃ النور (آیت: 30-31) اور سورۃ الاحزاب (آیت: 59) میں غیر محرم رشتے داروں کے درمیان پردے کا سختی سے حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’دیور موت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب النکاح)
یعنی دیور اور بھابھی کے درمیان بے پردگی اتنی خطرناک ہے کہ اسے موت کے مترادف قرار دیا گیا، مگر بدقسمتی سے ہمارے گھروں میں دیور، جیٹھ، کزن، سالہ، سسر سب ایک ہی چھت تلے آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں، اور خواتین کو یا تو اپنی نسوانیت دبانی پڑتی ہے، یا سارا دن دباو میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ یہ نہ صرف شریعت کے اُصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، بل کہ عورت کی عزتِ نفس اور ذہنی سکون کے بھی سراسر منافی ہے۔
اس نظام میں سب سے زیادہ استحصال اُن خواتین کا ہوتا ہے، جو نئی نویلی دلھن بن کر آتی ہیں، جنھوں نے نئی زندگی کی خوشیوں کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوتے ہیں، مگر یہاں ان کی شناخت ایک فرد کی نہیں، بل کہ صرف ’’بہو‘‘ کی بن کر رہ جاتی ہے۔ اُن پر ساس نند کے احکامات، دیور جیٹھ کی نظروں اور ہر وقت کے تقاضوں کا ایسا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ایک زندہ لاش بن کر رہ جاتی ہیں۔ اگر وہ ذرا سا اختلاف کرے، یا اپنے شوہر سے تنہائی میں وقت مانگے، تو فوراً اسے گستاخ، بدتمیز اور خاندان توڑنے والی قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے میں شوہر بیوی کے جذبات کا ساتھ دے، تو وہ ماں باپ کا نافرمان اور بے غیرت کہلانے لگتا ہے۔ یوں اسلام جس نے بیوی کو ایک الگ مقام، عزت اور شوہر کے ساتھ سکون بھری زندگی کا حق دیا، وہی اسلام صرف والدین کے حقوق کے نام پر یہاں عورت کے لیے عذاب بن کر پیش کیا جاتا ہے۔
نوجوان شادی شدہ بیٹے کو ایک طرف ماں باپ اور خاندان کی ’’وفاداری‘‘ کا ثبوت دینا ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنی بیوی کے ساتھ تعلق کو بچانا ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کو لے کر کہیں جا نہیں سکتا، کسی بات پر فیصلہ نہیں کر سکتا، نہ الگ ہی رہ سکتا ہے۔ کیوں کہ ہر جگہ ’’ماں باپ کے حقوق‘‘ کا تعویذ اس کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے، جب کہ اسلام نے بیٹے کو بیوی کے حقوق ادا کرنے، اس کی عزت کرنے اور الگ گھر دینے کا اختیار اور ضرورت کے وقت حکم بھی دیا ہے۔ نبی کریم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو شادی کے بعد الگ گھر دیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ الگ رہنا سنت اور فطرت کے قریب تر ہے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم میں غیر شادی شدہ اور یا گھر کے چھوٹے بیٹوں کو اکثر فوقیت حاصل ہوتی ہے، جب کہ شادی شدہ بیٹے یا گھر کے بڑے بیٹے کو ’’غلام‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جس کی اپنی کوئی زندگی، سوچ، احساس یا آزادی نہیں ہوتی۔ بہنیں شادی کے بعد بھی گھر آکر احکامات دیتی ہیں اور والدین کے نزدیک صرف وہی بیٹا اچھا ہوتا ہے، جو بیوی کو نظرانداز کر کے والدین کی ہر خواہش پر سرِ تسلیم خم کرے۔ یوں ایک جوان، باصلاحیت، نیک نیت انسان زندگی بھر صرف دو طرفہ دباو کا شکار رہتا ہے، اور اکثر ذہنی مریض بن کر رہ جاتا ہے اور ساری زندگی اس سے نجات پانا ممکن نہیں ہوتا۔
پاکستان اور بھارت میں ہونے والے حالیہ سماجی مطالعوں اور رپورٹوں سے بھی یہی بات سامنے آئی ہے کہ طلاق، گھریلو جھگڑوں اور خواتین کی ذہنی بیماریوں کی بڑی وجہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔ خصوصاً پشتون معاشرے میں یہ روایت ایک ایسی زنجیر بن چکی ہے، جس نے عورت کو سماجی، معاشی اور نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔
اسلام ایک متوازن دین ہے جو والدین، بیوی، شوہر، اولاد، سب کے حقوق کا منصفانہ تقسیم کا علم بردار ہے، مگر ہم نے روایت کو دین سے بلند کر دیا ہے اور دین کے نام پر خود ساختہ مفادات کا دفاع کرنے لگے ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم دین کو اصل ماخذ سے سمجھیں، ہر فرد کے حقوق تسلیم کریں اور ایسے نظام کو ختم کریں، جو قرآن، سنت اور فطرت تینوں کے خلاف ہے۔ اگر جوائنٹ فیملی سسٹم شریعت، عزتِ نفس اور خاندانی امن و سکون کو برقرار رکھتے ہوئے ممکن ہو، تو ضرور اپنائیں، لیکن اگر یہ عورت، نوجوان اور بچے کی زندگی کو برباد کر رہا ہو، تو پھر اس روایت کا جاری رہنا ظلم ہے، عبادت نہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

2 Responses

  1. بہت اچھا لکھا ہے.
    لیکن یہ تو مسائل کی نشاندہی ہے. ایسے مسائل کی صورت میں بچ نکلنے کا کوئی راستہ نکالنے کے لیے اگلی تحریر کا انتظار ہوگا.

    1. بالکل، یہ ایسے مسائل ہیں جن کا سامنا بہت سے شادی شدہ افراد کو کرنا پڑتا ہے۔ ان سے نجات پانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں دین اسلام کو صحیح طور پر سمجھنا اور اپنی زندگی کو اسی کے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ پشتون، پنجابی، سندھی یا بلوچی روایات کی اندھی پیروی، جو دین کے اصولوں سے ٹکراتی ہوں، ہمیں مزید الجھا دیتی ہے۔ یہ سب فرسودہ روایات ہیں جن سے باہر نکل کر ہی ہم اپنے گھروں میں حقیقی سکون، عدل اور محبت لاسکتے ہیں۔ ان شاء اللہ اگلی تحریر میں ان مسائل کا حل اور دین کی روشنی میں رہنمائی بھی پیش کی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے