گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ کے مطابق انجینئرنگ دنیا میں اب تک سب سے مشکل کورس ہے۔ چار سال کے دورانئے پر مشتمل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ 18 اگست 2010ء کو جاری ہونے والے اک رپورٹ میں انجینئرنگ کو بی کام، بی ایس سی، ایم بی بی ایس اور کمیشن کے امتحانات سے بھی مشکل دکھایا گیا ہے۔ اگر ’’گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ‘‘ کی رپورٹ کو بھی ایک طرف رکھ دیا جائے، تب بھی اگر آپ ایک انجینئر کو چار سال میں درپیش چیلنجز پر غور کریں، تو آپ بھی اس بات پر ضرور قائل ہو جائیں گے۔ چار سال میں ایک انجینئر کو 52 مشکل مضامین پڑھائے جاتے ہیں، جن میں اسے 104 پرچے، 300 اسائنمینٹ اور 300 کوئز دینے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے چھوٹے پراجیکٹ اور آخر میں ایک بڑا فائنل ائیر پراجیکٹ بھی کرنا پڑتا ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں جب دوسرے طلبہ سیر سپاٹوں میں مصروف ہوتے ہیں، انجینئرنگ کے طلبہ ان دنوں ’’انٹرٹ شپ‘‘ کے پیچھے خوار ہو رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ 800 گھنٹے انڈسٹری پریکٹس، ڈگری حاصل کرنے کیلئے لازمی ہوتی ہے۔

چار سال میں ایک انجینئر کو 52 مشکل مضامین پڑھائے جاتے ہیں. (Photo: National Textile University)

ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد جب خدا خدا کرکے ڈگری ہاتھ آجاتی ہے، تب انجینئر جنگل کے اُس چوک میں اپنے کو کھڑا پاتا ہے کہ جائے، تو کس طرف جائے؟ انجینئر کو مناسب سروس اسٹرکچر ملتا ہے اور نہ آسانی سے جاب ملتی ہے۔ سرکار اور پرائیویٹ کوئی بھی ان کو ان کا حق دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے استاد صاحبان اپنے دنوں کی کہانیاں سناتے ہیں، تو وہ ابھی خواب ہی لگتے ہیں کہ کس طرح آسانی سے بغیر انٹری ٹیسٹ کے ان کو داخلہ مل جاتا اور پھر گھر بیٹھے ان کو جاب بھی مل جاتی تھی۔ لیکن آج کل تو پہلے بندے کو ’’ایٹا‘‘ کے پلِ صراط سے گزارا جاتا ہے۔ پھر چار سال کے بعد وہ ڈگری ہاتھ میں لیے بھٹکتا پھرتا ہے۔ ایسے میں سننے میں آتا ہے کہ فلاں بے روزگار انجینئر نے خودکشی کرلی۔ اگر سسٹم اتنا بے انصاف ہوگا، تو وہ بے چارہ خود کشی نہیں کرے گا، تو اور کیا کرے گا؟
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں انجینئر کیلئے مواقع موجود نہیں ہیں۔ صرف ’’سی پیک‘‘ کے منصوبے میں ہی ہزاروں کی تعداد میں جابز تخلیق کیے جا سکتے ہیں، لیکن بڑی دکھ کی بات ہے کہ ’’سی پیک‘‘ میں اعلیٰ دماغ بھی چائینہ سے ہی امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی انجینئرنگ سے متعلق حکومتی ادارے دیکھیں، اُن میں سے زیادہ تر پر آپ کو ’’غیر انجینئر‘‘ ہی سربراہی کرتے ہوئے ملیں گے۔ مثلاً واپڈا کو لے لیجیے کہ اس کا سربراہ ایک ریٹائرڈ جنرل ہے، اب اگر کوئی چیف انجینئر یہ مطالبہ کرے کہ اسے ’’کور کمانڈر‘‘ لگا دیا جائے، تو کیسا لگے گا؟ لیکن یہ ناانصافی صرف انجینئرز کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور ایسے وقت میں جب وزیرِداخلہ، دفاع، مشیران، گورنر کے پی، سندھ کے وزیراعلیٰ حتیٰ کہ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی بھی ایک انجینئر ہی ہیں۔ لیکن اتنے بااختیار عہدے رکھنے کے باوجود یہ لوگ اپنے پیٹی بند بھائیوں کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہے ہیں۔

’’سی پیک‘‘ کے منصوبے میں ہی ہزاروں کی تعداد میں جابز تخلیق کیے جا سکتے ہیں، لیکن بڑی دکھ کی بات ہے کہ ’’سی پیک‘‘ میں اعلیٰ دماغ بھی چائینہ سے ہی امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ (Photo: bu.edu)

ہم ان مسائل کا رونا بھی نہیں رو رہے ہوتے، اگر حکومت کے بس میں ان کا حل نہ ہوتا۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کو حکومت چاہے تو دنوں میں حل کر سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ’’ٹرینی انجینئرز‘‘ کے نام پر کمپنیوں کو انجینئرز کے استحصال سے روکا جائے اور انہیں مناسب تنخواہیں دلوائی جائیں۔ اس کے علاوہ ’’سی پیک‘‘ میں پاکستانی انجینئرز کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ انجینئرز کو مناسب ’’سروس اسٹرکچر‘‘ دیا جائے، تاکہ ان کے ذہنوں سے غیر یقینی کیفیت کا خاتمہ ہو اور وہ دل جمعی سے کام کرسکیں۔ ’’ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کو اولین ترجیح دی جائے، تاکہ انجینئرز نئی ایجادات سے اپنے ہم وطنوں کے لیے سہولیات پیدا کرسکیں۔ اس کے علاوہ انجینئرز کو صرف ٹیکنیشنز سمجھنے کی روش کو ترک کیا جائے اور انہیں میرٹ کی بنیاد پر انتظامی اور مینجمنٹ سے تعلق رکھنے والے عہدوں پر تعینات کیا جائے۔ کیوں کہ ایک مسئلے کو حل کرنے کی جتنی ’’کویک ایپروچ‘‘ ایک انجینئر کی ہوتی ہے، وہ شاید ہی کسی اور کی ہو۔ اس کے علاوہ پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ اور قرضوں کی فراہمی کی بنیاد پر ان کے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ اگر حکومت انجینئرز کے آئیڈیاز میں سرمایہ لگائے گی، تو باآسانی اربوں ڈالرز کا سرمایہ کمایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انجینئرز کی اعلیٰ تعلیم اور ایڈوانس کورسز کا آسان بندوبست کیا جائے، تاکہ ہمارے ملک کے لوگ بھی دوسری اقوام سے پیچھے نہ رہیں۔ مسائل تو اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ ہیں، لیکن اگر ہمارے ملک کے انجینئر وزیراعظم صرف ان باتوں کو پورے ملک میں لاگو کریں، تو نہ صرف ان کے ٹیلنٹ کی قدر کی جائے گی بلکہ ہمارے پیارے ملک کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔