زمانۂ قدیم میں جب اظہار کو تحریر کی صورت حاصل نہیں تھی، تب یہاں کے باسی بڑے پتھروں اور چٹانوں پر مخصوص رنگوں سے انسانوں، حیوانوں اور بے جان اشیا کے نقوش کندہ کر کے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے تھے۔ اس دور کو تاریخ کے اوراق میں ’’پتھر کا دور‘‘ کہا گیا ہے۔
سوات کی تحصیل بریکوٹ سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر موضع کنڈاک کوٹہ کے پہاڑوں میں پتھروں پر نقش تین ہزار سال پرانی پینٹنگز دیکھی جا سکتی ہیں۔ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر ایک کچا راستہ بنایا ہے، جس پر فور بائے فور گاڑی باآسانی آپ کو وہاں تک پہنچا سکتی ہے جبکہ بلو کلے (کلے پشتو کا لفظ ہے جس کے معنی گاؤں کے ہیں) سے ان پینٹنگز تک کا فاصلہ ہلکی پھلکی ہائیک کے ذریعے تقریباً دو سے تین گھنٹوں میں باآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔
سوات کے آثارِ قدیمہ کا بغور مطالعہ کرنے والے ڈان میڈیا کے نمائندہ فضل خالق صاحب اپنی تحقیق کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ جہاں یہ تاریخی پینٹنگز پائی جاتی ہیں، اس علاقے کو کاکئی کنڈو اور سرگاہ سر کہتے ہیں۔ اس کی تاریخ ایک ہزار سے چودہ سو سال قبلِ مسیح پر محیط ہے۔ یہ آثار یہاں اِنڈو آرین نسل کے ہونے کا ثبوت ہیں۔

ان پینٹنگز میں ویسے تو کئی دیگر نقوش موجود ہیں، مگر انسان سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ دوسری چیزوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد پتا چلتا ہے کہ گویا ایک انسان ہے جو گھوڑے یا اس قبیل کے کسی دوسرے جانور پر سوار ہے۔ اس کے علاوہ جنگجو انسان کی شبیہ بھی اس میں دیکھی جا سکتی ہے، جو شاید یہ ظاہر کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے کہ اس پُرامن جگہ پر حملہ بھی ہوسکتا ہے۔ گائے، بیل، بھیڑ، بکری جیسے دیگر جانوروں کی شبیہات بھی ان پتھروں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔

فضل خالق صاحب کے بقول ان پینٹنگز کا بنظرِ عمیق جائزہ لینے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہاں ایسپاسوئی اور اساکونائی یعنی گھوڑوں والے لوگ (People of Horses) اور دارد (Dard) قبائل آباد تھے۔ ان پینٹنگز سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دور میں یہاں لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت کسی کے پاس نہیں تھی، اس لیے یہاں کے باسی تاریخ کا ریکارڈ مختلف شبیہات کے ذریعے رکھا کرتے تھے۔ اس پوری وادی کی تاریخ پروٹو ہسٹارک کلچر، یعنی تاریخ اور قبل از تاریخ کے زمانے کے کلچر پر مشتمل ہے۔ گمان کیا جاتا ہے کہ ان پینٹنگز میں استعمال ہونے والا رنگ اُس دور میں یہاں مقامی پہاڑوں سے حاصل ہونے والے ایک پتھر سے تیار کیا گیا تھا جسے ’’مائیکا‘‘ کہتے ہیں۔ مذکورہ پتھر کا رنگ اتنا پختہ ہے کہ اس کی مدد سے بننے والی پینٹنگز آج لگ بھگ تین ہزار سال گزرنے کے باوجود بھی نہ صرف دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ قابل شناخت بھی ہیں۔
کاکئی کنڈو اور سرگاہ سر دونوں جگہوں پر یہ پینٹنگز اور نقوش ایسی جگہوں پر کندہ ہیں جہاں سورج کی شعاعیں اور بارش کے قطرے نہیں پہنچ پاتے۔ اس وجہ سے پینٹنگز موسمی اثرات سے بھی محفوظ ہیں۔

یہ پینٹنگز وادی میں مختلف جگہوں پر بکھری پڑی ہیں، اس لیے ہر دس پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد بڑے بڑے پتھروں پر مخصوص نمبر وضع کئے گئے ہیں۔ ہم نے اپنی ہائیکنگ کے دوران میں ایک سے لے کر پندرہ نمبر تک مختلف جگہوں پر سرخ و سفید رنگ سے مارک کیے گئے پتھر دیکھے۔ اب تک سوات میں ایسی تاریخی پینٹنگز کی حامل تقریباً انچاس مختلف جگہوں کو دریافت کیا جاچکا ہے۔ کاکئی کنڈو اور سرگاہ سر کے ہزاروں سال پرانے آثار سوات میں ڈاکٹر لوکا ماریو کی سرکردگی میں پچھلے تیس یا پینتیس سال سے اطالوی آثارِ قدیمہ مشن نے دریافت کیے ہیں۔ ان پینٹنگز کے نقوش سوات میوزیم کی دیواروں پر بھی بنائے گئے ہیں۔ وہاں چوں کہ ان نقوش کا سائز بڑا کر کے دکھایا گیا ہے، اس لیے ان کی شناخت آسانی سے ہو جاتی ہے۔

ہمیں کئی جگہوں پر بڑے بڑے پتھروں میں کندہ کیے گئے چھوٹے چھوٹے گڑھے (جنہیں تاریخی کتب ’’کپ‘‘ گردانتی ہیں) بنی بنائی شکلوں میں نظر آئے۔ فضل خالق صاحب کے بقول ’’سکندر اعظم کے دور کے ایک مشہور تاریخ دان کورشس روفس (Curtius Rufus) کے ساتھ ساتھ تبت اور چین سے آئے ہوئے زائرین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ادھیانہ کے لوگ کافی زیادہ شراب پیتے ہیں۔ راستے میں نظر آنے والے بیسیوں ایسے گڑھے یا ’’کپ‘‘ ذکر شدہ مؤرخین اور زائرین کی بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔‘‘
کہتے ہیں کہ اُس دور میں ان گڑھوں میں شراب تیار ہوا کرتی تھی۔ چوں کہ تقریباً ہر بڑے پتھر میں ایسے کپ ملتے ہیں، لہٰذا کہا جاتا ہے کہ یہاں اتنے بڑے پیمانے پر شراب تیار ہونے اور پینے کا عمل گویا ان لوگوں کی ایک مذہبی رسم تھا۔

فضل خالق صاحب کے بقول کڑاکڑ (کاکئی کنڈو سے ملحق علاقہ جو ضلع بونیر اور سوات کو ملاتا ہے) کی طرف سے تقریباً تیرہویں صدی میں عظیم تبتی بدھ مت کے رہنما اُرجن پا (Orgyan Pa) یہاں آئے۔ وہ رقمطراز ہیں کہ اس علاقے میں تین چیزیں عام ہیں۔ ایک، یہاں انگور کے باغات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ دوسرا یہاں جنگلی حیات (خاص کر ہرن) کی بہتات ہے۔ تیسرا یہاں کئی اقسام کی ادویاتی جڑی بوٹیاں موجود ہیں، دنیا کی ہر ادویاتی جڑی بوٹی یہاں حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ ’’اُرجن پا‘‘ نے چاول کے کھیتوں کی بہتات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اُن کے بقول یہ چیزیں یہاں امن کی نشانیاں ہیں۔ یہاں کی خوبصورتی کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔‘‘

کاکئی کنڈو اور سرگاہ سر کے آثار تک پہنچنے سے پہلے راستے میں میٹھے پانی کا ایک چشمہ آتا ہے، جس سے آس پاس کی آبادی گدھوں اور خچروں کی مدد سے پانی لے جایا کرتی ہے۔ چشمے کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ چشمے کے ارد گرد جو چھوٹی سی چاردیواری بنائی گئی ہے اور پتھر جس سلیقے سے رکھ کر پانی کو روکے رکھا گیا ہے، وہ بدھ مت دور کا ہی کام ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ میٹھے پانی کے اس چشمے کی وجہ سے نہ صرف بلو کلے کا اٹھارہ سو سال پرانا وہاڑا یہاں آباد ہے بلکہ ہزاروں سال پرانی پینٹنگز بنانے والی آبادی بھی یہاں سے اپنی کھانے پینے کی ضرورتیں پوری کیا کرتی تھی۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔