سوات، ٹریفک مسائل بارے چند تجاویز

سوات آبادی کے لحاظ سے صوبہ کا تیسرا گنجان آباد ضلع ہے۔ دن بہ دن بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی کا ضلع سوات کے اَنگنت مسائل میں کلیدی کردار ہے۔انہی مسائل میں سے ا یک بے ہنگم ٹریفک کا مسئلہ بھی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سوات میں زیادہ تر سڑکیں ریاستی دور کی ہیں، جو بڑھتی ہوئی آبادی اور گاڑیوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ گاڑیوں کے رش میں اضافہ کی وجہ سے بننے والے چند اسباب اور ان کے موزوں حل کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔

مینگورہ میں کار پارکنگ کی شدید کمی ہے۔ یہاں گاڑیاں پارک کرنے کے لیے ایسی مخصوص جگہیں موجود نہیں ہیں کہ جہاں لوگ گاڑی کھڑی کرسکیں اور یا اگر ہیں بھی، تو آٹے میں نمک کے برابر۔ مجبوراً لوگوں نے سڑک کے کناروں کو ’’لوکل کار پارکنگ‘‘ بنا یا ہوا ہے، جس کے سبب راہ چلتی گاڑیوں کو آنے جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتاہے اور نتیجتاً سڑک جام ہوتی ہے۔ اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ مینگورہ شہر میں مختلف مقامات پر لوکل کار پارکنگز بنائی جائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی گاڑی سڑک کنارے کھڑی نظر آتی ہے، تو فوراً اسے لفٹر کے ذریعے اٹھایا جائے اور متعلقہ ڈرائیور کو بنا کسی تفریق کے چالان کیا جائے۔

سڑک کنارے کھڑی ریڑھیوں پر سخت پابندی لگا دی جائے۔ ان کے لئے اگر ایک بازار مخصوص کرلیا جائے، تو انہیں بھی اپنا روزگار چلانے کا موقع ہاتھ آجائے گا۔ اس طرح دکانوں کے تجاوزات کو فوری طور پر ہٹایا جائے، گرچہ اس پر کام جاری ہے، مگر اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اس اقدام سے ٹریفک اور اس سے جڑے مسائل میں کافی حد تک بہتری آسکتی ہے۔
شہر کی ٹریفک کو مخصوص روٹس پر بہتر طریقے سے تقسیم کیا جائے۔ مطلب کہ اگر کسی نے فضاگٹ جانا ہو، تو وہ بائی پاس والا روٹ استعمال کرے نہ کہ اندرونِ شہر سے گزرے یا پھر قمبر یا کانجو سائڈ سے آنے والے افراد سیدو شریف جانے کے لیے امانکوٹ فیض آباد سے ہو کر جائیں نہ کہ منگورہ شہر سے۔

ٹرانسپورٹ سسٹم کو نئے طرز سے متعارف کرائے جانے کی ضرورت ہے۔ (Photo: Tribal News Network)

ٹرانسپورٹ سسٹم کو نئے طرز سے متعارف کیا جائے۔ سب سے پہلے تو ہر جگہ نظر آنے والے رکشہ، سوزوکی اور ٹو ڈی سٹینڈز کو ختم کیا جائے اور انہیں شہر سے باہر سٹینڈز کی مختلف جگہیں دی جائیں۔ اس کے علاوہ رکشہ سروس کو ایک نئی شکل دی جائے، جیسے کہ ہمارے قابل قدر سینئر صحافی فیاض ظفر صاحب نے اپنے ایک آرٹیکل میں تجویز دی تھی، جس میں ’’رجسٹرڈ‘‘ رکشوں کو مختلف رنگ دے کر دو تین شفٹوں میں تقسیم کرنے کی بات کی گئی تھی۔ ہر شفٹ کی رکشہ کے لیے الگ رنگ تجویز کیا گیا تھا، جیسے لال، پیلا اور ہرا۔ ان رنگوں کے حساب سے چھے چھے گھنٹے ایک ایک شفٹ چلائی جائے۔ مگر سب سے پہلے ان رکشوں کا سدباب کیا جائے جو غیر قانونی ہیں۔ سوات میں قانون کی کمزوری کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ مٹھی بھر غیر قانونی رکشے چلانے والے پوری انتظامیہ کو ناک رگڑنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ایک نمبر پلیٹ پر سات سات، آٹھ آٹھ رکشے چلتے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔

جتنا جلدی ہوسکے، سبزی منڈی اور جنرل بس سٹینڈ کو منگورہ شہر سے باہر منتقل کیا جائے۔ جنرل بس سٹینڈ، جی ٹی روڈ پر ٹریفک کو جام رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

آخر میں، مَیں ٹریفک پولیس میں حالیہ متعارف ہونے والے ٹریفک وارڈن؍ رائڈر سسٹم پر حکومتِ خیبر پختونخواہ اور سوات کے دیگر عہدیداروں کو داد دیتا ہوں، جس کی وجہ سے ٹریفک جام مسئلہ میں پیش رفت ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ اعلیٰ حکام سے اپیل کی جاتی ہے کہ اگر درج بالا تجاویز پر غور و خوص کیا جائے، تو سوات اور بالخصوص مینگورہ شہر کے مسائل میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔