اب کے اس جدیدت کو سیّال جدیدت کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ اس دور میں کوئی ٹھہراؤ نہیں۔ افکار، نظریات اور اشیا سب خلط ملط ہوچکی ہیں۔ ہم بری طرح بکھر چکے ہیں۔ ہر لحظہ نشاط چاہتے ہیں۔ بے قراری بڑھ چکی ہے۔ اقدار بدل رہی ہیں۔ نئے سماجی رویّے سر اٹھا رہے ہیں۔ سرحدیں مٹ رہی ہیں۔ انسان کے گرد کھینچے گئے دائرے ٹوٹ رہے ہیں۔ نئی قدریں جنم لے رہی ہیں جن کے سامنے ہم بے بس ہیں۔ بے چینی حددرجہ ہے اور ہمیں اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ ہم ایک طرح سے نفسیاتی ہیجان انگیزی کا شکار ہو رہے ہیں اور ہم ہمہ وقت ایک ہلچل کی صورتحال چاہتے ہیں۔ انسان عالمی گاؤں کا باشندہ ہوکر بھی تنہا ہوچکا ہے۔
اس طرح کی کیفیات کی کچھ علامتیں ہم سب میں پائی جاتی ہیں:

بار بار سوشل میڈیا پر پوسٹس چیک کرنا۔

نوجوانوں کا حد سے زیادہ اپنی شکل کے بارے میں فکر مند ہونا۔

ٹی وی دیکھتے وقت بار بار چینلز بندلنا۔

سیگریٹ نوشی اور دوسرے نشے کرنا۔

زیادہ وقت ٹیلیفون پر گزارنا۔

 کتب بینی سے اکتا جانا وغیرہ شامل ہیں۔

ایسے میں اس احساس کی وجہ سے ڈر سا لگتا ہے کہ ہماری بعد کی نسلوں کی حالت کتنی بھیانک ہوسکتی ہے؟

اس کا حل کیا ہے؟

اس سوال پر مسلسل گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔