ان کا بڑا بیٹا اسماعیل خان دعوے سے کہتا ہے کہ ان کے والد بزرگوار بیس قسم کی چائے تیار کرتے تھے جس کی قیمت (فی کپ) اُس وقت کے حساب سے بارہ آنے سے لے کر پانچ سو روپیہ تک ہوتی تھی۔
اس حوالہ سے سینئر صحافی فیاض ظفر اپنی یادوں کی پوٹلی کھولتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ آج سے کوئی سولہ سترہ سال پہلے کی بات ہے، جب عام چائے تین روپے اور سپیشل چائے یہی کوئی پانچ روپے فی پیالہ کے حساب سے نوش کی جاتی تھی۔ سپیشل طوطی رحمان کے کھوکھے یا ہوٹل پر جب کوئی شخص چائے پینے آتا، تو وہ ہر نئے آنے والے سے کہتا کہ جناب، کون سی چائے پئیں گے؟ یہاں پانچ روپے سے لے کر پندرہ سولہ سو روپے تک کی ایک پیالی چائے تیار کی جاتی ہے۔ یہ بات کسی نے یہاں ایک فوڈ انسپکٹر کے گوش گزار کی۔ فوڈ انسپکٹر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میریٹ‘‘ اور ’’پی سی‘‘ جیسے عالیشان ہوٹلوں میں پچاس روپیہ فی پیالی چائے فروخت ہوتی ہے، چل کر دیکھتے ہیں کہ کھوکھے کو چلانے والے میں سرخاب کے پر لگے ہیں یا پھر چائے میں کوئی خاص بات ہے۔ فوڈا نسپکٹر جیسے ہی اپنے معاون کے ساتھ ملابابا روڈ پر ایک عام سی دکانوں کے بیچ ’’سپیشل طوطی رحمان ہوٹل‘‘ میں جلوہ افروز ہوا، تو سلام دعا کے بعد طوطی رحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا کہ بھئی، تگڑی سی چائے پینے کا موڈ ہے۔ تیار کرکے دے دیجیے۔ طوطی رحمان نے فوڈ انسپکٹر کا سرسری جائزہ لینے کے بعد کہا کہ صاحب، چائے کون سی پینا پسند فرمائیں گے، یہاں بیس مختلف قسم کی چائے ملتی ہے، یعنی پانچ روپیہ سے لے کر سولہ سو روپیہ تک کی چائے یہاں دستیاب ہے۔ فوڈ انسپکٹر نے اپنی شناخت چھپا کر اسے سولہ سو روپیہ والی چائے کا کپ تیار کرنے کا آرڈر دے دیا۔ طوطی رحمان نے اس وقت مذکورہ چائے کو تیار کرنے والی جڑی بوٹیاں نکالیں۔ ہاون دستے کی مدد سے انہیں پیسا اور خالص دودھ کی بالائی میں چائے کی پتی ڈالتے ہوئے دو پیالی کڑک چائے تیار کی۔ فوڈ انسپکٹر نے خوب مزے لے کر گرم گرم چائے کی چسکیاں لیں اور ہوٹل سے نکلتے وقت پورے پانچ ہزار روپے جرمانہ بھرنے کا پروانہ طوطی رحمان کو تھما دیا۔ یوں نہ صرف طوطی رحمان بے چارے کے بتیس سو روپے ڈوب گئے بلکہ الٹی آنتیں گلے پڑگئیں یعنی پانچ ہزار کا جرمانہ بھی انہیں بھرنا پڑا۔‘‘

ہماری آج کی نشست ریاستی دور کے اس کردار کے نام ہے جنہیں تمام بڑے بوڑھے اور میری طرح اسّی کی دھائی میں آنکھ کھولنے والے سبھی ’’سپیشل طوطی رحمان‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ والئی سوات کے دور سنہ ساٹھ عیسوی میں طوطی رحمان ایک نوخیز لڑکا تھا۔ اس دور میں نیو روڈ مینگورہ میں طوطی رحمان کی اپنی ایک بیکری تھی۔ وہ اپنی بیکری میں کیک رسک، بسکٹ اور خاص کر اپنے تیار کردہ کیک ایک چھابڑی میں رکھ کر فروخت کیا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ یہ اشیا، طوطی رحمان دیسی گھی (جسے یہاں عرف عام میں ’’اصیل غوڑی‘‘ کہتے ہیں) میں تیار کیا کرتے تھے اور ان کا دعویٰ ہوتا تھا کہ ان کی اشیا کوئی عام اشیا نہیں بلکہ ’’سپیشل‘‘ ہیں۔ وہ اپنی مخصوص سیٹی بجا کر ’’سپیشل طوطی رحمان‘‘ کی صدا لگاتا ہوا گلی گلی کوچہ کوچہ اپنی تیار کردہ کھانے کی اشیا لے جاتا۔ اس لئے رفتہ رفتہ ’’سپیشل طوطی رحمان‘‘ کے نام سے انہیں ہر چھوٹا بڑا پکارنے لگا۔ اس دور میں مسکن، گرلز ہائی سکول، میلہ حتی کہ مینگورہ شہر، سیدوشریف اور گرد و نواح کی کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں سپیشل طوطی رحمان مع اپنی چھابڑی کے نہ پہنچے ہوں۔ چینہ مارکیٹ جہاں پہلے بہت بڑا پانی کا چشمہ ہوا کرتا تھا (چشمہ کو پختو زبان میں چینہ کہتے ہیں)، وہاں سے مینگورہ شہر کی عورتیں پانی بھر کر اپنے گھروں کو لے جایا کرتی تھیں، وہاں گرچہ عام آدمیوں کا گزرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، مگر طوطی رحمان اپنے پاک و صاف کردار کی وجہ سے جایا کرتے تھے اور کوئی اس بات کا نوٹس نہیں لیا کرتا تھا۔ سنہ ستّر اور اسّی عیسوی کے دور میں مینگورہ شہر اور سیدو شریف کا ایک بھی ایسا محلہ، گلی یا کوچہ نہیں ہوگا، جہاں انہوں نے اپنی حاضری نہ دی ہو۔ اپنے کردار کی وجہ سے کہیں بھی ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھی۔
طوطی رحمان کے بڑے بیٹے اسماعیل خان جو آج کل ہوٹل کے کرتا دھرتا ہیں، کے بقول ’’سپیشل طوطی رحمان نے چھبیس اپریل سنہ انیس سو اڑتالیس کو مینگورہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے آبا و اجداد ریاست دیر سے نقل مکانی کرکے سوات آئے تھے۔ میری دادی یعنی ان کی ماں کا تعلق چارسدہ کے ایک معزز خاندان سے تھا، جو میرے والد بزرگوار کی پیدائش کے ٹھیک ایک سال بعد اُنہیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ چوں کہ اس دور میں والد صاحب کی رہائش تاج چوک میں تھی، اس لئے ہائی سکول نمبر ایک بنڑ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنی جماعت میں امتیازی پوزیشن لیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر کیپٹن علی، ڈاکٹر گیان پرکاش، ملک بیرم خان ’’تاتا‘‘ اور چیف جسٹس (ر) ناصر الملک صاحب جیسی شخصیات ان کی ہم جماعت یا اک آدھ جماعت آگے پیچھے تھیں۔‘‘

اسماعیل خان کا اپنے حافظے پر زور دیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ ’’اکثر برسبیل تذکرہ میرے والد فرماتے کہ اساتذہ ان کا خصوصی طور پر خیال رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ طوطی رحمان اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے، اس لئے یہ زیادہ قابل احترام ہے۔ اس طرح جب بچے کسی سوال کے جواب میں غلطی کر جاتے، تو دوسرے ہی لمحے والد صاحب جواب دے جاتے۔ بسا اوقات اساتذہ ان کو تمام غلطی کرنے والوں کو سزا دینے کے احکامات بھی جاری کرتے، جن کی بجا آوری میں والد صاحب ایک عجیب سی خوشی محسوس کرتے۔‘‘
اسماعیل خان کے بقول ’’کچھ مالی کمزوری اور کچھ ہمارے دادا محترم کی طبیعت کی سختی کی وجہ سے والد صاحب تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور کم عمری میں ہمارے دادا محترم کا ہاتھ بٹانے لگے۔ ریاستی دور میں چھوٹی سی عمر میں کیک رسک، بسکٹ اور کیک بیچتے رہے۔ ادغام کے بعد شادی کی اور ملا بابا روڈ پر ایک چائے کا کھوکھا یا ہوٹل کھولا، جہاں آج بھی لوگ اچھی اور کڑک چائے کی طلب میں آتے ہیں۔ آج اس ہوٹل کو قائم ہوئے چالیس سال پورے ہوچکے ہیں۔ ‘‘

اسماعیل خان کے بقول: ’’ہوٹل میں ہر قسم کے لوگ آکر چائے کی خواہش ظاہر کرتے تھے۔ جتنے منھ اتنی باتیں، کوئی کہتا پتّی کم ہے، تو کوئی دودھ کی کمی کا رونا روتا۔ ایسے میں میرے والد بزرگوار کو بڑا غصہ آتا اور وہ سوچتے کہ بھئی، یہ کام تو کافی صبر آزما ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنا ایک الگ مقام بنانے کے لئے چائے کے ساتھ مختلف تجربات شروع کئے۔ یہ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ تقریباً بیس قسم کی چائے تیار کرنے کا مختلف فارمولہ ان کا اپنا ایجاد کردہ تھا۔ اس وقت کے مطابق بارہ آنے کی ایک پیالی چائے ملتی تھی۔ اس وقت بھی لوگ اپنی مرضی کی چائے کے عوض سیکڑوں روپیہ ادا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ اقسام دودھ کی مدد سے تیار ہوتی تھیں اور کچھ بغیر دودھ کے۔ قہوہ چائے کی کئی اقسام کے لئے بھی میرے والد بزرگوار مشہور تھے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ چائے میں مختلف جڑی بوٹیوں کے علاوہ کھمبی، خشخاش، بادام، کھوپرا، پستہ اور الائچی جیسی اشیا کا استعمال کیا کرتے تھے۔ زعفران کی مدد سے تیار ہونے والی چائے کی ایک پیالی کی قیمت لوگ عام طور پر پانچ سو روپیہ ادا کیا کرتے تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب عام چائے کی پیالی بارہ آنے کی ہوتی تھی۔ آج وہی بارہ آنے والی چائے پورے بیس روپے کی ملتی ہے، تو میرے ناقص خیال کے مطابق اگر وہ زندہ ہوتے، تو آج تیرہ ہزار تین سو روپے تک کی ایک پیالی چائے تیار کرنے کا دعویٰ کرتے۔‘‘
استادِ محترم فضل ربی راہیؔ صاحب کے بقول: ’’ہم جب بچے تھے، تو دو انگلیوں کی مدد سے زبان کو خاص انداز سے پھیر کر منھ سے بجانے والی سیٹی اور اِس مخصوص آواز ’’سپیشل طوطی رحمان‘‘ کے ساتھ گھروں سے پیسے ہاتھ میں لے کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ اُن کے گلے میں ایک رسّی کی مدد سے ڈالی گئی چھابڑی میں سپیشل کیک ہوتے۔ اس کیک کو خریدنے کے لئے ہم روزانہ اُس مخصوص سیٹی اور آواز کے منتظر ہوتے۔ پھر بڑا ہونے کے بعد سپیشل طوطی رحمان کے ہوٹل کے ساتھ ہم نے اُدھیانہ مارکیٹ میں ایک دکان کھولی۔ ان دنوں طوطی رحمان کا دعویٰ ہوتا کہ دس روپیہ سے لے کر پانچ ہزار روپیہ تک میں ایک پیالی چائے تیار کرسکتا ہوں۔ میں بذات خود اُنہیں ریاست سوات کی ثقافت اور تہذیب کا حصہ مانتا ہوں۔ وہ مینگورہ شہر اور سیدو شریف کے ہر گلی کوچہ میں گھومتے۔انکی مخصوص سیٹی انکی پہچان ہوتی۔‘‘

قبلہ ریاض مسعود صاحب اپنی یادوں کی پوٹلی کھولتے ہوئے کہتے ہیں: ’’سپیشل طوطی رحمان میری یادداشت میں سنہ انیس سو ستر سے لے کر انیس سو اسّی تک ہیں۔ وہ نور کے تڑکے کے ساتھ اٹھتے اور اپنی چھابڑی گلے میں ڈال کر منھ سے مخصوص سیٹی بجاتے۔ ان کا پہلا پڑاؤ ہمارا محلہ ’’باچا صیب چم‘‘ ہوتا۔ ان کا قد مناسب تھا۔ جسمانی لحاظ سے لحیم شحیم تھے۔ ان کے چہرے پر برص کے نشان نمایاں تھے۔وہ تمام تر اشیا اپنی تیار کردہ ہی بیچتے تھے اور اس کے دام مناسب ہوتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہمیں جتنا جیب خرچ ملتا، اس میں صبح سویرے ان سے ایک کیک خرید لیتے اور باقی پیسے اپنے ساتھ اسکول کچھ کھانے کی غرض سے بھی لے جاتے۔ واضح رہے کہ ان کے گھر میں ان کی اپنی ایک بیکری تھی۔ ‘‘
ایک جگہ میں نے سنا تھا کہ سوات میں اولین بیکری ’’سپیشل طوطی رحمان‘‘ کی قائم کردہ تھی، لیکن قبلہ ریاض مسعود صاحب اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سوات کی اولین بیکری، براڈ وے بیکری (Broad Way Bakery) تھی، جہاں آج ’’رنگینہ پیزار زے‘‘ (نیو روڈ) کی عمارت کھڑی ہے، ٹھیک وہاں پر مذکورہ بیکری کی عمارت ہوتی تھی۔ ریاض مسعود صاحب کے بقول میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر سپیشل طوطی رحمان کی بیکری ریاست کی دوسری یا تیسری بیکری ہوسکتی ہے۔
پانچ ستمبر 2011ء کو ’’سپیشل طوطی رحمان‘‘انتقال کرگئے ہیں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔