(نوٹ: یہ مختصر سی تحریر ڈاکٹر رفیع اللہ، ایسوسی ایٹ پروفیسر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، کی ایک پشتو تحریر کا ترجمہ ہے، مترجم)
یہ تنازع دراصل والی سوات کے بنگلے کی ملکیت پر ہے، جو ایک طرف والی سوات کے جانشین اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے وزیر فضلِ حکیم کے درمیان خرید و فروخت کے مسئلے پر کھڑا ہوا ہے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ معاملہ عوامی دل چسپی کا بھی ایک موضوع بن گیا ہے۔ اَب یہ الگ بات ہے کہ دونوں دعوے دار کیا کہتے ہیں، وہ میری دل چسپی کا حصہ نہیں، مگر بعض دوستوں اور اہلِ علم کی رائے ہے کہ خیبر پختونخوا کا محکمۂ آثارِ قدیمہ اس بنگلے کو ’’قومی ورثہ‘‘ قرار دے کر اپنی ملکیت میں لے اور اس کے تحفظ کی سعی کرے۔
بہ ظاہر یہ تجویز بری نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ محکمہ اس قابل ہے بھی کہ 21ویں صدی کے تناظر میں ورثے کا وہ تصور عملی کرسکے جو درکار ہے؟
میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔
محکمۂ آثارِ قدیمہ کا پورا ڈھانچا اور طریقِ کار آج کے تاریخی و ثقافتی ورثے کے جدید فہم اور عملی تقاضوں سے قطعی ہم آہنگ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام اب بھی ’’کلونیل ہیرٹیج مینجمنٹ‘‘ کی باقیات ہے، جو ’’پوسٹ کلونیل‘‘ضروریات اور حالات کے خلاف چل رہا ہے ۔ اس کے علاوہ اس محکمے کا غیرلچک دار اور مرکزیت پر مبنی ڈھانچا بھی ایک طرح سے آثارِ قدیمہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔
سب سے پہلے تو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ محکمہ (آثارِ قدیمہ) قومی ورثے کو پہلے ہی سے مکمل طور پر غیر ملکی اداروں کے سپرد کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں مقامی دانش اور ماہرین کو بالکل بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اُن کا علم اور تحقیق، یعنی سب کچھ جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں والی سوات کا بنگلہ یا اس جیسے دوسرے آثار، جو پہلے سے محکمے کی تحویل میں نہیں، اس نظام کے حوالے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہمیں مرکزیت کے بہ جائے اختیارات کی تقسیم کی ضرورت ہے۔ علاقائی آثارِ قدیمہ کے حوالے سے ذمے داری اور اختیار مقامی سطح پر منتقل ہونا چاہیے۔ یوں مقامی ورثے کی تحقیق اور حفاظت زیادہ موثر طریقے سے ممکن ہوگی۔ اگرچہ پشاور ہمارا ایک بڑا مرکز ہے، لیکن اگر کئی انتظامی معاملات میں مقامی مراکز قائم کیے جائیں، تو ان کی اِفادیت بے مثال ہوگی۔
اگر ہم سوات کے آثارِ قدیمہ کو تنقیدی نظر سے دیکھیں، تو یہ تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ زمانوں سے سوات کے مختلف علاقوں کے آثار رفتہ رفتہ مٹ رہے ہیں اور ہم خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ فُلاں یا فُلاں ادارہ کام کر رہا ہے…… مگر سوال یہ ہے کہ کیا سوات کا سارا ورثہ صرف سیدو شریف یا بریکوٹ تک محدود ہے؟ اور اگر کبھی کوئی کام ہوتا بھی ہے، تو اُس میں محکمۂ آثارِ قدیمہ کا اپنا علمی اور تحقیقی کردار کہاں ہے؟
یہ ایک الگ سوال ہے کہ جو کام کیا جا رہا ہے، وہ سوات کے عوام کے کتنے کام آ رہا ہے؟ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں یہی اقدامات سوات میں شناختی سیاست اور نئے تنازعات کے دروازے کھول دیں۔
سوات کے عوام مکمل طور پر آثارِ قدیمہ کے عمل سے نکالے گئے ہیں۔ یہ ماننے کے لیے ہمیں خون کا گھونٹ پینا پڑے گا۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بریکوٹ میں لوگوں کو کس بے انصافی اور سختی سے اپنی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے۔ ایسے میں والی سوات کے بنگلے یا دیگر آثار کے بارے میں ایک باشعور اور باخبر رائے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے سوات کے عوام کو اس ورثے کا بنیادی فریق تسلیم کیا جانا چاہیے؛ ریاست اور ملکی و غیر ملکی ادارے اس کے بعد آنے چاہییں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔











One Response
Where is now the brave woman mussarat Ahmed zeb and. Zebunissa infact all the royal family wali swat y qasab aw dam ko domra zorawar sho.aw doi begherata