قارئین! بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں غیر متعلق ہوچکی ہیں۔ سب کا منشور یک ساں ہے، سب کی منزل صرف اقتدار حاصل کرکے ’’مالی فوائد‘‘ سمیٹنا ہے۔ ایسے میں عام آدمی کا عدم اعتماد ہی سیاسی جماعتوں کو واپس ٹریک پر لاسکتا ہے۔ ان جماعتوں میں نہ کوئی نظریہ باقی بچا ہے، نہ کوئی قابلِ عمل پروگرام اور نہ عوام کے لیے مستقبل بینی کا کوئی وژن ہی ہے۔ یہ ’’بنجر پن‘‘ نہ صرف سیاسی نظام کے لیے خطرناک ہے، بل کہ ایک طرح سے عوام کے لیے زہرِ قاتل بھی ہے۔
اس ’’جمہوری اور سیاسی خزاں‘‘ میں عوام پر لازم ہے کہ وہ پارٹی پرستی، شخصیت پرستی، نسل پرستی اور جغرافیہ پرستی سے بلند ہو کر نظام بچانے پر توجہ مرکوز کریں۔
سیاسی جماعتیں دراصل عوام ہی کی ملکیت ہوتی ہیں…… لیکن جب یہی جماعتیں ’’پبلک لمیٹڈ کمپنیاں‘‘ بن جائیں، تو پھر ہر ہم دردی، جذباتیت اور وابستگی کو قربان کر کے اس جعلی تخیل سے باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ’’میری پارٹی ہے، اس لیے اچھی ہے، اور دوسروں کی بری ہے ۔‘‘
محاسبہ بہت ضروری چیز ہے …… اور محاسبہ ہمیشہ خود سے شروع ہونا چاہیے۔ ’’خود‘‘ میں بھی سب سے پہلے اپنے نظریات، خیالات اور جذبات سے ابتدا کرنی چاہیے۔
اس کے بعد عمل کی باری آتی ہے، جو انھی اعتقادات کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس شدید سیاسی و جمہوری بحران اور ’’فکری بانج پن‘‘ میں ہمیں کتاب اور شعور کا سہارا لینا ہو گا۔
قارئین! سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ ٹھہراؤ یا انحطاط صرف ہمارے ہاں ہے، یا سیاسی و سماجی علوم میں یہ کئی دیگر معاشروں میں بھی ایک معروف مظہر کے طور پر موجود ہے؟
نیز اس کے اسباب اور مضمرات کیا ہیں؟ سب سے بڑھ کر، کیا اس سے نکلنے کی تدابیر موجود بھی ہیں یا نہیں……؟
قارئین! اس کے لیے اولین ضرورت سول سوسائٹی کو منظم کرنا ہوتی ہے…… یعنی ایسے لوگوں کو اکٹھا کرنا جنھیں معاشرتی اقدار کا شعور ہو، یا کم از کم احساس ہو۔
درپیش مسائل کو اُن کی اہمیت کے لحاظ سے ترتیب دے کر اُجاگر کرنا ضروری ہے۔ رائے عامہ کو ہم وار کر کے ایک موثر دباو پیدا کرنا ہوتا ہے، تاکہ سیاسی جماعتوں کو یہ احساس ہو کہ ان کا بیانیہ سول سوسائٹی کے بیانیے کے مقابلے میں کم تر اور غیر موثر سمجھا جا رہا ہے۔
میرے ناقص علم کے مطابق اس عمل کے دو اہم نتائج نکلنے ہیں: اوّل، ’’اجتماعی شعور اور دانش میں پختگی آئے گی۔‘‘ دوم، ’’سیاسی جماعتوں کو یہ احساس ہوگا کہ وہ راستے سے بھٹک چکی ہیں اور غیر متعلق ہوتی جا رہی ہیں۔‘‘
تمام سیاسی جماعتیں سب سے پہلی کوشش یہ کرتی ہیں کہ سول سوسائٹی کی تحریکوں اور ان کے شعور کی آب یاری کو کسی طریقے سے روکا جائے۔ اگر اس میں ناکام ہوں، تو دوسری کوشش ان کی یہ ہوتی ہے کہ وہ اُن تحریکوں میں گھس کر اُن کی قیادت اور طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔
جب پارٹیوں کی یہ کوشش بھی ناکام ہوجائے، تو آخری حربے کے طور پر وہ اپنی اصلاح کا آغاز کرتی ہیں، اس حد تک کہ سول سوسائٹی کی تحریکوں کے مقابلے میں ایک منظم بیانیہ تیار کر سکیں، جو بہ ظاہر زیادہ موثر، معتبر اور مفید لگے ۔اگر سول سوسائٹی کی تحریکیں شعوری ارتقا کے ساتھ سرگرم رہیں، اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایک مستقل فکری چیلنج بنی رہیں، تو بالآخر سیاسی جماعتوں میں احتساب کا ایک خود کار نظام جنم لیتا ہے۔
پھر تنقید بیرونی نہیں رہتی، بل کہ جماعتوں کے اندر سے اٹھتی ہے…… اور یوں کارکردگی کا موازنہ ہونے لگتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جہاں سے سیاسی جماعتیں جمہوری تنقید کے کلچر میں واپس آتی ہیں۔ کیوں کہ اب اُنھیں ایک باشعور معاشرے میں بیانیہ بنانا ہوتا ہے اور بیانیے میں حقیقت اور کردار لازم ہوتے ہیں۔
قارئین! بھلے ہی کوئی مجھ سے اتفاق نہ کرے، مگر مَیں یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ ہم ایسے ہی ایک منجمد اور ساکت مقام پر پہنچ چکے ہیں، جہاں اب شعوری انقلاب کی اشد ضرورت ہے…… جسے ہم ’’سوشل ڈیموکریٹک‘‘ یا ’’سماجی جمہوری تبدیلی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔
یہ انسانی جبلت ہے کہ جب نظام ناکام ہوجائے، یا جامد ہو جائے، تو تحریکیں خود بہ خود جنم لیتی ہیں۔ یہ تحریکیں کبھی پُرتشدد اور انتہاپسندانہ ہوتی ہیں…… اور کبھی سول سوسائٹی کی پُرامن جدوجہد کی صورت اختیار کرتی ہیں۔
اس وقت ملک میں متعدد غیر منظم تحریکیں اُبھر چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تحریکوں کو مربوط اور کام یاب بنایا جائے، ان کا حصہ بنا جائے…… اور اس کے ذریعے فکری، معاشرتی، سیاسی، جمہوری اور روایتی تبدیلیوں کا آغاز کیا جائے۔
مینگورہ، سوات میں قلیل عرصے میں سول سوسائٹی کی تحریکوں نے ’’ہسپتال‘‘، ’’قبرستان‘‘، ’’سانحۂ بائی پاس‘‘ جیسے مسائل پر موثر آواز بلند کی ہے اور ان کے کچھ نتائج بھی سامنے آئے ہیں…… لیکن یہ خطرہ موجود ہے کہ یہ نتائج سول سوسائٹی کی تحریکوں کے سائنسی اور جدید ڈھانچے کی عدم موجودگی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی کے باعث صرف وقتی اُبال تک محدود نہ رہ جائیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مکمل، مضبوط اور منظم ڈھانچا تشکیل دیا جائے، تاکہ معاشرے میں حقیقی تحریک پیدا ہو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
