معاشی پالیسی کسی بھی حکومت کے وِژن، عوامی ترجیحات اور سیاسی اخلاقیات کا عکاس ہوا کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کا مالی سال 2025-26ء کا بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے، جب پاکستان معاشی دباو، سیاسی غیر یقینی اور سماجی بے چینی کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بدترین گورننس کے ہاتھوں تنگ آچکے ہیں، تو دوسری طرف ریاستی ادارے قرضوں، مالی خسارے اور اندرونی و بیرونی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ بجٹ ایک فیصلہ کن لمحہ بن کر اُبھرتا ہے: کیا یہ بجٹ محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے یا واقعی ایک عوامی دستاویز ہے، جو خیبرپختونخوا کے کروڑوں شہریوں کے مسائل کا حل بن سکتی ہے؟
بجٹ میں حکومت نے 2,119ا رب روپے کے کل محصولات اور 1,962 ارب روپے کے اخراجات کا اعلان کیا ہے، جس سے 157 ارب روپے کا بجٹ سرپلس ظاہر کیا گیا ہے۔ بہ ظاہر یہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ صوبہ اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ نہیں کر رہا، مگر کیا یہ سرپلس حقیقی ہے یا صرف وفاقی فنڈز، بیرونی امداد اور مشروط وصولیوں پر انحصار کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے؟
یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ سرپلس صرف تب معتبر ہوتا ہے، جب وہ صوبے کی اپنی آمدنی، یعنی "Own Source Revenue” سے حاصل ہو، نہ کہ قرضوں یا مشروط گرانٹس سے۔
محصولات کی بنیاد، صوبائی خود کفالت یا وفاقی رحم و کرم؟:۔ وفاق سے متوقع منتقلی 1,506.93 ارب روپے بتائی گئی ہے، جو کل آمدن کا تقریباً 71 فی صد ہے۔ صوبے کی اپنی آمدن کا تخمینہ صرف 129 ارب روپے لگایا گیا ہے، جو نہایت کم زور مالی خود مختاری کا مظہر ہے۔ اس سے یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا اب بھی اپنی مالی بقا کے لیے مکمل طور پر وفاق کا محتاج ہے۔
ضم شدہ اضلاع کے لیے 292.34 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جب کہ بیرونی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 177.18 ارب روپے متعین کیے گئے ہیں۔ گویا بجٹ کا ایک بڑا حصہ وہ ہے، جو یا تو وفاق سے آنا ہے، یا بین الاقوامی اداروں سے مشروط معاونت کے تحت۔
صحت کا شعبہ ہر دور میں عوامی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ امسال صحت کارڈ پلس پروگرام کے لیے بندوبستی اضلاع میں بجٹ کو 28 ارب سے بڑھا کر 35 ارب روپے کر دیا گیا ہے، جب کہ ضم شدہ اضلاع کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں بون میرو ٹرانسپلانٹ اور کاکلیئر امپلانٹس جیسی مہنگی طبی سہولیات کی شمولیت ایک انقلابی قدم ہے۔ تاہم، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ سہولیات ہر شہری تک پہنچ پائیں گی؟ 2,500 بنیادی صحت مراکز کی اَپ گریڈیشن کا اعلان ہوا ہے، لیکن گذشتہ بجٹ میں ایسے ہی اعلانات کے باوجود درجنوں مراکز عمل درآمد سے محروم رہے۔ جب تک نگرانی، شفافیت اور پبلک فیڈبیک کا موثر نظام قائم نہیں ہوتا، صحت کا ہر بجٹ ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس طرح تعلیم کا بجٹ 327 ارب روپے سے بڑھا کر 363 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ 16 ہزار اساتذہ کی بھرتی اور 28 ہزار اساتذہ اور ہیڈ ٹیچرز کی تربیت کا منصوبہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنا سکتا ہے، بہ شرط یہ کہ میرٹ پر عمل ہو۔ 32,500 اسکولوں میں سہولیات کی بہتری، گرلز کیڈٹ کالج اور یونیورسٹی سبسڈی کو 3 ارب سے بڑھا کر 10 ارب کرنے جیسے اقدامات صوبے کے تعلیمی منظرنامے میں بہتری کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
لیکن تعلیمی نظام کی اصل بیماری نصاب کی خامیاں، پرائمری سطح پر طلبہ کا اسکول چھوڑنا، اساتذہ کی عدم دل چسپی اس بجٹ میں کہیں موضوعِ بحث نہیں بنے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم اب بھی حکومت کے نزدیک ایک ثانوی معاملہ ہے۔
پولیس کے بجٹ کو 124 ارب سے بڑھا کر 158 ارب روپے کر دیا گیا ہے اور تنخواہیں پنجاب پولیس کے مساوی کر دی گئی ہیں۔ شہدا پیکیج میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جو ایک خوش آیند قدم ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹس، سی ٹی ڈی دفاتر کی اَپ گریڈیشن اور دیگر اقدامات تکنیکی طور پر درست سمت میں ہیں…… لیکن پولیس میں اصلاحات، احتساب اور عوام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی پالیسی نہیں دی گئی۔ جب تک پولیس فورس عوامی خدمت کے بہ جائے سیاسی مقاصد کا آلہ بنی رہے گی، تنخواہوں میں اضافہ کسی تبدیلی کا ضامن نہیں ہو سکتا۔
٭ اعداد و شمار کا کھیل یا عملی منصوبہ بندی؟:۔ ترقیاتی اخراجات کا کل حجم 547 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ صوبائی اے ڈی پی، ضلعی اے ڈی پی، ضم شدہ اضلاع کا اے ڈی پی، اے آئی پی، بیرونی امداد اور پی ایس ڈی پی گرانٹس تمام کو ملا کر ایک جامع ترقیاتی منصوبہ بنایا گیا ہے۔اے ڈی پی پلس کا بجٹ 120 ارب سے بڑھا کر 155 ارب روپے کیا گیا ہے، جو کہ حکومتی ترجیحات میں تبدیلی کی علامت ہے، لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سال کے اے ڈی پی کا 30 فی صد سے زائد حصہ غیر استعمال شدہ رہا۔ اگر ماضی کی کارکردگی یہی رہی، تو یہ نیا بجٹ بھی محض اعلان در اعلان بن جائے گا۔
200 شمسی ٹیوب ویلز، ضم شدہ اضلاع میں زراعت اور لائیوسٹاک کی ترقی اور ماحولیاتی منصوبے جیسے شجرکاری، گرین گروتھ اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات، یہ سب اقدامات اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ حکومت دیہی معیشت اور ماحولیات کو سنجیدگی سے دیکھنے لگی ہے۔
سیاحت کے شعبے میں زونز، ہوٹل بیڈ ٹیکس میں کمی اور سڑکوں کی بہتری جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔ تاہم، یہ تمام کوششیں اس وقت بے اثر ہوں گی جب تک کہ ماحولیاتی قوانین کا نفاذ، تجاوزات کے خلاف کارروائی اور مقامی کمیونٹی کو اعتماد میں لینے کی روایت فروغ نہ پائے۔
خواتین اور نوجوانوں کے لیے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے تعلیم، ہنر، کھیل اور روزگار کی فراہمی کے نام پر، مگر کوئی واضح پالیسی، فریم ورک یا طریقۂ کار نہیں دیا گیا، جس سے یہ پتا چلے کہ ان منصوبوں کو کیسے اور کس کے ذریعے نافذ کیا جائے گا؟
نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے صرف ’’اسکل ڈیولپمنٹ‘‘ یا ’’اسٹارٹ اَپ سپورٹ‘‘ کہنا کافی نہیں، بل کہ ایک مکمل ماڈل، سرمایہ کاری، تربیت اور مارکیٹ لنک ایج کی ضرورت ہے، جو اس بجٹ میں ناپید ہے۔
کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ قابلِ تحسین ہے، خاص طور پر مہنگائی کی موجودہ لہر میں۔ اخراجات میں کمی، محکمۂ خزانہ کی منظوری کے بغیر قرضہ یا اسکیم کی اجازت نہ دینا، گاڑیوں، دفاتر، ایندھن اور بجلی کے استعمال میں کمی، یہ سب احتیاطی تدابیر ہیں جو معاشی نظم کو بہتر بنا سکتی ہیں…… مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں بجٹ کا بڑا حصہ سیاسی مداخلت اور کرپشن کا شکار ہوتا ہے، وہاں ان اعلانات کی سچائی کا انحصار صرف اور صرف عمل درآمد پر ہے۔
تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اور پنشن میں 7 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ ڈسپیرٹی الاؤنس 30 فی صد تک بڑھایا گیا ہے اور کم از کم تنخواہ 36,000 سے بڑھا کر 40,000 روپے کر دی گئی ہے۔ یہ اقدامات عوامی دباو کو کم کرنے کے لیے کیے گئے ہیں اور وقتی ریلیف کا باعث بن سکتے ہیں…… لیکن بجٹ خسارے سے نمٹنے کے لیے تنخواہوں میں مسلسل اضافہ، جب کہ آمدن میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہو، ایک خطرناک معاشی صورتِ حال کو جنم دے سکتا ہے۔
٭ نتیجہ،کیا یہ واقعی عوام دوست بجٹ ہے؟:۔ اگر ہم صرف بجٹ کی ساخت دیکھیں یعنی تعلیم، صحت، تنخواہیں، ترقیاتی اخراجات اور زراعت، تو یہ بجٹ بہ ظاہر ایک جامع اور عوام دوست خاکہ پیش کرتا ہے…… مگر حقیقی عوام دوستی صرف منصوبوں کے اعلان سے نہیں، بل کہ ان کے شفاف اور بروقت نفاذ سے جڑی ہے۔
جب تک صوبائی حکومت ترقیاتی بجٹ کے مکمل استعمال کو یقینی نہیں بناتی، گورننس، نگرانی اور احتساب کے نظام کو فعال نہیں کرتی، مالی خودمختاری پر توجہ نہیں دیتی اور عوامی شراکت، فیڈبیک اور مقامی حکومتوں کو اختیار نہیں دیتی ، تب تک یہ بجٹ بھی ماضی کے تمام بجٹوں کی طرح ’’اعلان‘‘، ’’تحسین‘‘ اور ’’بھول‘‘ کے چکر میں گم ہو جائے گا۔
خیبرپختونخوا بجٹ 2025-26ء ایک نئے عزم، بہتر نیت اور موزوں ترجیحات کا غماز ضرور ہے، مگر یہ ایک طویل سفر کا آغاز ہے، منزل نہیں۔ اگر یہ بجٹ ایک ایسے نظام کی بنیاد بن جائے جہاں عوامی رائے، شفافیت اور انصاف کو مرکزی حیثیت حاصل ہو، تو یہ نہ صرف صوبے، بل کہ پاکستان بھر کے لیے ایک کام یاب ماڈل بن سکتا ہے۔ورنہ…… یہ بجٹ بھی آنے والے سال میں چند سرکاری اشتہارات، فیتے کاٹنے کی تقریبات اور ٹی وی مباحثوں میں ’’کام یابیوں‘‘ کی کہانی تک محدود ہو کر رہ جائے گا اور عوام ایک بار پھر اگلے بجٹ کے وعدوں کے سہارے زندہ رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
