راکھ میں لپٹا خواب

Blogger Sami Khan Torwali

یہ دنیا خوابوں سے عبارت ہے۔ کبھی آنکھیں بند کرکے، تو کبھی آنکھیں کھول کر ہم سب خواب ہی دیکھتے ہیں۔ کوئی پردیس کی چمکتی سڑکوں پر کام یابی کی تمنا کرتا ہے، تو کوئی اپنے بچوں کے لیے وہ مستقبل چاہتا ہے، جو اُسے خود نہ مل سکا۔ خواب صرف خواہش نہیں ہوتے، یہ قربانی، صبر، محنت اور جد و جہد کے وہ گوشے ہوتے ہیں جو انسان کی روزمرہ زندگی کو معنی دیتے ہیں، مگر یہی خواب کبھی کبھار راکھ بن کر انسان کی ہتھیلی پر بکھر جاتے ہیں۔
لندن میں مقیم ’’پرتیک جوشی‘‘ (Pratik Joshi) اور اُن کی بیوی ’’ڈاکٹر کومی ویاس‘‘ (Doctro Komi Vyas) کا خواب بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ دونوں تعلیم یافتہ، پیشہ ور، محنتی اور خواب پر یقین رکھنے والے لوگ تھے۔ پرتیک جوشی گذشتہ چھے برس سے لندن میں ایک سافٹ ویئر کمپنی میں خدمات انجام دے رہے تھے، جب کہ اُن کی بیوی بھارت میں بہ طورِ معالج اپنی پیشہ ورانہ زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے تین کم سن بچے ایک مکمل خاندان، ایک مکمل دنیا مگر دو براعظموں میں بٹی ہوئی۔
چھے برس، یعنی دو ہزار سے زائد دن، پرتیک نے ایک ہی خواب کے ساتھ گزارے کہ ایک دن اُن کی بیوی اور بچے بھی لندن میں اُن کے ساتھ ہوں گے۔ وہ سب مل کر ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔ اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے اُنھوں نے کاغذوں، درخواستوں، انٹرویوز اور قانونی مراحل سے گزرتے ہوئے نہ جانے کتنی راتیں بے خوابی میں کاٹیں!
پھر وہ دن آیا جس کا شدت سے انتظار تھا۔ صرف دو دن قبل، ڈاکٹر کومی ویاس نے اپنے اسپتال سے استعفا دے دیا۔ سب کچھ باندھ لیا گیا۔ سامان تیار، دل بے قرار اور آنکھوں میں وہ چمک جو صرف منتظر منزلوں کو دیکھنے والوں کی ہوتی ہے۔ بچوں کو بھی شاید اندازہ نہ تھا کہ وہ اب صرف والد کو ویڈیو کال پر نہیں، بل کہ ہر روز سامنے دیکھ سکیں گے۔ یہ ایک نئی زندگی کی شروعات تھی۔
پھر وہ صبح آئی، جس پر قسمت نے اپنی سیاہ مہر ثبت کرنا تھی۔ ایئر انڈیا کی پرواز 171، جو لندن جا رہی تھی، اُن کی خوابوں کی ناؤ تھی۔ روانگی سے قبل لی گئی ایک خوش باش سیلفی، جس میں ماں، باپ اور تین معصوم بچے ایک نئے باب کا آغاز کرتے دکھائی دے رہے تھے، وہ سیلفی اُن کا آخری لمحہ بن گئی۔ پرواز کو کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک الم ناک خبر دنیا کے سامنے آئی طیارہ گر کر تباہ ہو چکا تھا۔ کوئی مسافر بچا، نہ عملے کا کوئی فرد۔ پرتیک، کومی اور اُن کے بچے سب خاک ہو گئے۔ خواب، قربانیاں، مہینوں کی تیاری، برسوں کی جد و جہد سب کچھ لمحوں میں ختم ہو گیا۔
یہ صرف ایک خاندان کا زیاں نہیں، بل کہ پوری انسانیت کے ضمیر پر ایک دستک ہے۔ ہم کس یقین پر زندگی گزار رہے ہیں، کس غرور پر خواب بنتے ہیں، کون سا لمحہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے؟ انسان کا غرور، اُس کی پیش گوئیاں، اُس کے منصوبے سب لمحاتی حقیقتوں کے سامنے شکست خوردہ کھڑے ہوتے ہیں۔
قارئین! یہ تحریر صرف ایک حادثے کا بیان نہیں، بل کہ ایک سوال ہے:کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جو خواب ہم ’’کل‘‘کے لیے بچا رکھتے ہیں، وہ ’’آج‘‘ ہی ہمارا آخری دن ہو سکتا ہے؟ کیا ہم اپنے پیاروں کو وقت دیتے ہیں، اُنھیں بتاتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کتنے قیمتی ہیں یا ہم ہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ ابھی بہت وقت ہے؟
ایئر انڈیا کی پرواز 171 کے مسافر صرف اعداد نہیں تھے، وہ خواب، قربانی، محبت اور خاندان کے استعارے تھے۔ اُن کی کہانیوں کو ایک عددی خبر میں سمیٹ دینا ناانصافی ہے۔ اُنھیں انصاف دینا صرف حادثے کی تحقیقات تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بل کہ یہ ایک اجتماعی اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم زندگی کو اس کی اصل قدر و قیمت سے دیکھیں، وقت کو ضائع نہ کریں اور اپنے رشتوں کو وقت اور محبت دیں۔
پرتیک اور کومی کی کہانی اُن تمام والدین کی کہانی ہے، جو اپنے بچوں کے لیے پردیس کی خاک چھانتے ہیں۔ اُن کا زیاں اُن ہزاروں خاندانوں کے لیے ایک عبرت ہے، جو اپنوں کو چھوڑ کر، مستقبل کی تعمیر کے خواب میں اپنی آج کی خوشی قربان کرتے ہیں۔
ہمیں ان سوالات پر غور کرنا ہوگا: کیا ہمارے ہوائی سفر محفوظ ہیں؟ کیا ریاستی ادارے اپنی ذمے داری پوری کر رہے ہیں؟ کیا تکنیکی نظام وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ہم نے بہ طورِ انسان، وقت کی قدروقیمت کو سمجھا ہے ؟
اس حادثے نے وقت کی ناپائیداری پر ایک زوردار مہر ثبت کی ہے۔ ایک تصویر جو خوشی کی نمایندہ تھی، اب ایک نوحہ بن چکی ہے۔ ایک پرواز جو نئی زندگی کا آغاز تھی، وہ آخری سفر ثابت ہوئی۔ ایک خواب جو آنکھوں میں سجا تھا، وہ راکھ بن کر رہ گیا۔پرتیک جوشی اور اُن کے خاندان کے لیے دعا ہے کہ اللہ تعالی اہلِ خانہ کو صبر عطا فرمائے۔ ہم سب کے لیے یہ واقعہ ایک پیغام ہے کہ زندگی مختصر ہے، رشتے قیمتی ہیں، لمحے غنیمت ہیں۔ تو جیو، محبت کرو اور خوشی کے لیے کل کا انتظار مت کرو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے